پاکستان کے دیہات 80 فیصد غریبوں کا مسکن قرار


اسلام آباد: کبوتر پورہ گلبرگ لاہور کے قبرستان میں آسودہ خاک درویش صفت بیوروکریٹ مسعود کھدر پوش نے مشہور زمانہ ’ہاری رپورٹ‘ میں جرات مندی کے ساتھ جو اختلافی نوٹ لکھا تھا اس کی بھرپور تصدیق کئی دہائیوں کے بعد عالمی بینک (ورلڈ بینک ) نے بھی اپنی جاری کردہ رپورٹ میں یہ کہہ کر کردی ہے کہ پاکستان کی 80 فیصد غریب آبادی دیہاتوں میں بستی ہے۔

عالمی بینک کی رپورٹ نے یہ ’کہاوت‘ بھی غلط ثابت کردی ہے کہ ’’پاکستان دیہات میں بستا ہے‘‘ کیونکہ حقیقتاً اب دیہات میں ’غربت‘ اگتی ہے۔

عالمی بینک کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب کے شہری اور دیہی علاقوں کے درمیان غربت کی شرح کا فرق 13 فیصد ہے۔ صوبہ خیبرپختونخوا میں یہ فرق 15 فیصد ہے جب کہ سندھ میں یہی فرق بڑھ کر 30 تک پہنچ گیا ہے۔

عالمی بینک نے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے متعلق کہا ہے کہ وہاں غربت کی شرح سب سے زیادہ ہے کیونکہ 62 فیصد دیہی آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبورہے۔

جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے شہری علاقوں کی نسبت دیہات میں غربت کی شرح دوگنی ہے۔ افسوسناک امر ہے کہ یہ فرق 2002 سے برقرار ہے اور تاحال اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

پاکستان میں اس دوران جنرل پرویز مشرف، چودھری شجاعت حسین، شوکت عزیز، آصف علی زرداری، سید یوسف رضا گیلانی، ممنون حسین اور میاں نواز شریف کی حکومتیں قائم ہوئیں۔ ملک میں اس وقت پاکستان تحریک انصاف برسراقتدار ہے اور اس کی جانب سے عمران خان وزارت عظمیٰ پر فائز ہیں۔

عالمی بینک کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ شہری آبادی کے صرف 13 فیصد بچے مڈل اسکول تک تعلیم حاصل کرپاتے ہیں۔ دیہاتی پس منظر کے حامل بچوں میں سے محض دو فیصد کو مڈل اسکول تک تعلیم مل پاتی ہے۔

دیہات کے بچوں کے متعلق یہ خوفناک انکشاف بھی رپورٹ کا حصہ ہے کہ پرائمری تعلیم بھی صرف گیارہ فیصد بچوں کے حصے میں آتی ہے۔ دیہی پس منظر کی حامل بچیوں میں یہ شرح بھی 17 فیصد ہے۔ دیہی خواتین میں بھی تعلیم کی شرح 28 فیصد پائی گئی ہے۔

عالمی بینک نے لکھا ہے کہ شہری علاقوں کے تین سال تک کی عمر کے ساڑھے آٹھ  فیصد بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کی سہولیات دستیاب ہوتی ہیں۔ دیہی علاقوں میں یہ شرح بھی دس فیصد ہے۔

محکمہ صحت کی کارکردگی کے متعلق یہ ہولناک انکشاف بھی رپورٹ میں کیا گیا ہے کہ ملک کے شہری علاقوں کی صرف 28 فیصد مائیں بچوں کو اسپتالوں میں جنم دیتی ہیں اور دیہی خواتین کی 12 فیصد کو یہ سہولت میسر آتی ہے۔

یہ اعداد و شمار اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ آج بھی اکیسویں صدی میں پاکستانی ماؤں کی غالب اکثریت بچوں کو بنا کسی بنیادی اور ضروری سہولیات کے گھروں پر دائیوں کے ہاتھوں جنم دلواتی ہے۔

عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بلوچستان کے 40 فیصد اضلاع کی اکثریت غربت کا شکار ہے۔ سندھ کو اس ضمن میں دوسرا نمبر دیا گیا ہے جب کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے متعلق کہا گیا ہے کہ تین اضلاع غربت سے محفوظ ہیں۔

عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں کراچی اور حیدرآباد کو خوشحال شہروں میں شامل کیا ہے۔

لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، ملتان اوربہاولپور کے متعلق عالمی بینک کا مؤقف ہے کہ دیگر شہروں اور علاقوں کی نسبت ان شہروں میں سہولیات قدرے بہتر ہیں۔

غریب پرور کراچی کے متعلق عالمی بینک کا کہنا ہے کہ ملک کے ڈھائی فیصد غریب شہر قائد میں رہتے ہیں اور غربت کی شرح 8.9 فیصد ہے۔

زندہ دلان لاہور کے شہر کو 2.2 فیصد غریبوں کا ٹھکانہ قرار دیا گیا ہے.

60 کی دہائی میں مسعود کھدر پوش نے اپنے مشہور زمانہ اختلافی نوٹ میں لکھا تھا کہ ’’ملک کے ہاری قرون وسطیٰ کے دور کی زندگی گزاررہے ہیں‘‘۔ انہوں نے تجویز پیش کی تھی کہ ’’جو زمین جو ہاری یا کسان کاشت کرتا ہے وہ اس کے نام ہونی چاہیے کیونکہ وہی اس کا اصل حقدار ہے‘‘۔


متعلقہ خبریں