العزیزیہ ریفرنس: 44 جواب عدالتی ریکارڈ کا حصہ، 107 باقی


اسلام آباد: سابق وزیراعظم نوازشریف نے العزیزیہ ریفرنس میں 44 سوالوں کے جوابات ریکارڈ کرادیے ہیں اور احتساب عدالت نے انہیں مزید 101 سوالات پر مشتمل دستاویز دی ہے جس کا جواب کل بروز جمعرات ریکارڈ کیا جائے گا۔

احتساب عدالت نے قبل ازیں نواز شریف کو 50 سوالات دیے تھے جن میں سے 44 کا جواب عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا لیا گیا ہے۔

نوازشریف نے روسٹرم پر کھڑے ہوکر صرف پانچ سوالات کا جواب دیا اور باقی تحریری طور پر عدالت میں جمع کرائے گئے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ 50 میں سے پانچ سوالوں کے جواب اپنے وکیل خواجہ حارث سے مشاورت کے بعد دوں گا۔ نوازشریف نے بتایا کہ کہ کچھ سوالات پیچیدہ ہیں، ریکارڈ دیکھنا پڑے گا کچھ وقت دیا جائے۔

نوازشریف نے صبح 45 سوالوں کے جواب ریکارڈ کرائے تھے تاہم وقفے بعد خواجہ حارث نے استدعا کی کہ سوال نمبر24 کے جواب کو منہا کردیا جائے۔ عدالت نے استدعا منظور کرلی۔

نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے سوال نمبر 16 پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ایک سوال میں دو سوالات کیے ہیں اور اگلے چار سوالوں میں بھی وہی بات دوہرائی گئی ہے۔ خواجہ حارث نے اعتراض اٹھایا کہ سوال نمبر 46 میں بھی کافی ساری چیزیں مکس ہیں۔

عدالت نے العزیزیہ سٹیل مل ریفرنس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کردی ہے۔ جمعرات کو بھی نوازشریف کا 342 کا بیان ریکارڈ کیا جائے گا۔

دوسری جانب سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے احتساب عدالت کو دی گئی ڈیڈ لائن بھی ختم ہونے کے قریب ہے۔ عدالت عظمیٰ نے چھٹی بار 17 نومبر تک توسیع دی تھی۔

احتساب عدالت کی جانب سے فلیگ شپ ریفرنس میں 18 اور العزیزیہ میں 22 گواہان کے بیان قلم بند کیے گئے ہیں۔ احتساب عدالت نے مدت میں ایک اور توسیع کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کا عندیہ بھی دیا تھا۔

342 کے تحت نوازشریف کا بیان

سابق وزیر اعظم نوازشریف نے نیب کی جانب سے دائر العزیزیہ ملز ریفرنس میں سی پی سی کے سیکشن 342 کے تحت ریکارڈ کرائے گئے بیان میں کہا یہ بات درست ہے کہ میں وزیراعظم، وزیراعلیٰ، وزیر خزانہ اور اپوزیشن لیڈر کے عہدوں پر فائز رہا اور تین بار ملک کا وزیر اعظم بھی رہا ہوں۔

انہوں نے جواب دیا کہ میں نے استغاثہ کے شواہد دیکھ لیے ہیں۔

نواشریف نے بتایا کہ پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999 کو مارشل لاء لگایا اور میں  مارشل لاء کے دوران کوئی عوامی عہدہ نہیں رکھتا تھا۔ بارہ اکتوبر 199 سے مئی 2013 تک کسی عوامی عہدے پر نہیں رہا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ عوامی عہدوں پر رہنے کے باعث شریف خاندان کے سب سے با اثر شخص تھے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ یہ تفتیشی کی رائے تھی کہ میں شریف خاندان کا سب سے با اثر شخص تھا، میرے والد میاں شریف بھی آخری سانس تک ہمارے خاندان کے سب سے با اثر شخص تھے۔

نوازشریف نے عدالت میں ریکارڈ کرائے گئے اپنے بیان میں بتایا یہ درست ہے کہ عدالت میں پیش کئے گئے ٹیکس ریٹرنز ، ویلتھ اسٹیمٹمنٹس اور ویلتھ ٹیکس ریٹرن میں نے ہی جمع کروائے تھے۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا دو ہزار ایک سے آٹھ تک میں جلا وطن تھا۔ انہوں نے کہا کہ حسین نواز کے جمع کروائے گئے ٹیکس سے متعلق جواب دینے کا میں مجاز نہیں ہوں۔


متعلقہ خبریں