قطری شہزادے کے خطوط سے کوئی تعلق نہیں، نوازشریف کا بیان

فوٹو: فائل


اسلام آباد: قومی احتساب بیورو(نیب) کی جانب سے دائرالعزیزیہ ملز ریفرنس میں جواب دیتے ہوئے نواز شریف نے قطری شہزادے کے خطوط سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا ہے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ یہ خطوط 1980 کے 12 ملین درہم کے معاہدے سے متعلق ہیں اوران کا تعلق لندن فلیٹ سے ہے۔  میں کسی بھی حیثیت سے ٹرانزیکشن کا حصہ نہیں رہا، میر انام کہیں کسی بھی دستاویز میں نہیں ہے۔

احتساب عدالت میں جمع کرائے گئے جواب میں نواز شریف نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کوئی قابل قبول شہادت نہیں، جے آئی ٹی کے دس والیم محض ایک تفتیشی رپورٹ ہیں۔

نوازشریف نے جمعرات کے روز مزید 45 سوالات کے جواب احتساب عدالت میں جمع کرائے ہیں۔

سابق وزیراعظم نے روسٹرم پر کھڑے ہوئے 342 کے تحت سوال نمبر 52سے 56 تک کے جواب دیے اور کچھ تحریری طور پر عدالت میں جمع کرائے۔

عدالت کی جانب سے نوازشریف کو مجموعی طور پر 151 سوال دیے گئے ہیں اور سابق وزیراعظم کا بیان 342 کے تحت ریکارڈ کیا جارہا ہے۔

گزشتہ روز بھی سابق وزیراعظم نے 44 سوالوں کا جواب قلمبند کرایا تھا۔ انہوں نے روسٹرم پر کھڑے ہوکر صرف پانچ سوالات کا جواب دیا اور باقی تحریری طور پر عدالت میں جمع کرائے تھے۔

احتساب عدالت کی جانب سے فلیگ شپ ریفرنس میں 18 اور العزیزیہ میں 22 گواہان کے بیان قلم بند کیے گئے ہیں۔ احتساب عدالت نے مدت میں ایک اور توسیع کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کا عندیہ بھی دیا تھا۔

342 کے تحت نوازشریف کا بیان

نوازشریف نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کوئی قابل قبول شہادت نہیں، جے آئی ٹی کے دس والیم محض ایک تفتیشی رپورٹ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دستاویزات کے مطابق ریکارڈ پر ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ مختصر نام ہے جب کہ ہل میٹل کا پورا نام ہل انڈسٹری فارمیٹل اسٹیبلشمنٹ ہے۔

سابق وزیراعظم نے بتایا کہ 10 دسمبر 2000 میں بیوی بچوں اور خاندان کے ہمراہ 2007 تک جلاوطن رہا۔

جج ارشد ملک نے ریمارکس دیے کہ جب آپ یہاں سے گئے تو آپ کی جیب خالی تھی آپ کے اکاؤنٹس منجمد کر دیئے گئے تھے۔

نوازشریف نے کہا کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا قبل ازیں 2 جنوری 1972 میں بھی ایسا ہو چکا تھا، جب ہمیں جلاوطن کیا تھا تو ہماری اتفاق فائنڈری کو نیشنلائز کر دیا گیا تھا۔

نوازشریف نے کہا کہ 1999 کے مارشل لا کی الگ کہانی ہے ،موقع ملا تو بتائیں گے۔ مارشل لا کے بعد شریف خاندان کے کاروبار کا تمام ریکارڈ ایجینسیوں نے غیرقانونی تحویل میں لے لیا۔

سابق وزیراعظم نےبتایا کہ ریکارڈ اٹھائے جانے کیخلاف متعلقہ تھانے میں شکایت درج کرائی گئی لیکن متعلقہ تھانے کی طرف سے ہماری شکایت پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا

انہوں نے کہا کہ یہ بات عام علم کی ہے کہ مجھے اہلیہ اور بچوں کے ساتھ دسمبر 2000 میں جلا وطن کردیا گیا اور بیرون ملک رہنے پر مجبور کیا گیا۔

احتساب عدالت میں ریکارڈ کرائے گئے اپنے بیان میں نوازشریف نے کہا کہ میری جلاوطنی کے دنوں میں نیب نے غیر قانونی طریقے سے ہماری خاندانی رہائش گاہ کو تحویل میں لے لیا۔ نیب نے صبیحہ عباس اور شہباز شریف کے نام جائیداد کے کاغذات بھی قبضے میں لیے۔

سابق وزیراعظم نے بتایا کہ رمضان شوگر ملز اور چوہدری شوگر ملز کو مذموم مقاصد کے تحت کام کرنے کی اجازت دی گئی۔ چوہدری شوگر ملز سے 110ملین اور رمضان شوگر ملز 5 ملین روپے نکلوا لیے گئے، شوگر ملز سے نکلوائی گئی رقم واپس نہیں کی گئی۔

نوازشریف نے بتایا کہ جلاوطنی کے بعد واپسی پر نیب کے اقدامات کیخلاف عدالت سے رجوع بھی کیا تھا۔


متعلقہ خبریں