خاشقجی قتل کیس: پانچ افراد کو موت کی سزا دینے کا مطالبہ

جمال خاشقجی قتل کیس: عدالت نے آٹھ ملزمان کو سزا سنادی

فوٹو: فائل


اسلام آباد: سعودی پبلک پراسیکیوٹر نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا ذمہ دار 11 افراد کو قرار دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ان پر فوجداری کا مقدمہ چلایا جائے گا۔

انہوں نے واضح کیا کہ قتل سے متعلق 21 افراد سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے جس کی وجہ سے انہیں عدالتی تحویل میں دے دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خاشقجی کے قتل کا حکم دینے اور اس پر عمل کرنے والے پانچ افراد کو سزائے موت اور دیگر کو مقررہ سزائیں دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق وہ گزشتہ روز سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔

ترکی کے نشریاتی ادارے ’ٹی آر ٹی‘ کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ ’’سعودی اٹارنی نے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ  قونصل خانے میں  خاشقجی کی موت  گلا گھونٹنے اور موت آور دوا دینے سے ہوئی جس کے بعد ان کی  نعش  ٹکڑوں میں  قونصل خانے سے باہر نکالی گئی جس کی تلاش جاری ہے‘‘ ۔

  ٹی آرٹی کے مطابق ’’سعودی اٹارنی نے  بتایا ہے کہ  خاشقجی کی وطن واپسی   کی  تمام  سرکاری کوششیں ناکام  ہو گئی تھیں جس پر یہ واقعہ پیش آیا اور اس میں ملوث گیارہ ملزمان میں سے پانچ کو  موت کی سزا تجویز کی گئی ہے۔

سعودی پبلک پراسیکیوشن کا کہنا تھا کہ خاشقجی کے قتل کا حکم اس سعودی ٹیم کے سربراہ نے دیا جسے انہیں مملکت لانے کی ذمہ داری تفویض کی گئی تھی۔

سعودی عرب کے مؤقر اخبار’اردو نیوز‘ کے مطابق پبلک پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی جب وطن واپسی پر رضامند نہیں ہوئے تو انہوں نے ان کے قتل کا حکم دے دیا۔ انہوں نے کہا کہ سعودی ٹیم کو استنبول سے خاشقجی کو سعودی عرب لانے کا کام سونپا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ سابق مشیر سعودی القحطانی کو بلیک لسٹ کردیا گیا ہے اور انہیں مملکت سے سفر سے روک دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان سے تفتیش چل رہی ہے۔

سعودی پبلک پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ سابق مشیر کا کردار محکمہ خفیہ کے سابق سربراہ کے کہنے پر  ملاقات کرنے والے گروپ کے سربراہ سے ملاقات تک محدود تھا لیکن القحطانی، خاشقجی کو وطن واپس لانااپنی فتح سمجھ رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ سعودی قونصل خانے سے سی سی کیمرے معطل کرنے کا ذمہ دار بھی ان میں سے ایک شخص ہے۔

خبررساں ایجنسی کے مطابق سعودی پبلک پراسیکیوٹر نے پریس کانفرنس میں واضح کیا کہ ترک حکومت سے 17 اکتوبر2018، پھر 25 اکتوبر 2018 اور 31 اکتوبر 2018 کو خاشقجی کے قتل کے واقعہ سے متعلق حقائق، شواہد اور اصل
ریکارڈنگ فراہم کرنے کی درخواستیں کی گئیں لیکن ابھی تک ترکی سے کچھ بھی نہیں ملا ہے۔

عالمی خبررساں ادارے کے مطابق ترکی کے وزیر خارجہ میولود چاوش اولو نے جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے کہا ہے کہ اس وقت ہم جس جگہ پہنچ گئے ہیں وہاں بین الاقوامی تفتیش لازمی ’شرط‘ بن گئی ہے۔

ترکی کے نشریاتی ادارے ’ٹی آر ٹی‘ کے مطابق قومی اسمبلی میں سوالات کے جوابات میں ان کا کہنا تھا کہ سعودی صحافی کے قتل کے معاملے میں ترکی نے ایک شفاف تفتیش کی ہے جس کو دنیا نے تسلیم کیا ہے۔

چاوش اولو نے دعویٰ کیا کہ سب سے پہلے ہم نے اس کیس میں سعودی عرب کے ساتھ مل کر ورکنگ گروپ قائم کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ابھی ہم اس کیس کو عالمی عدالت میں نہیں لے جانا چاہتے ہیں مگر اس کیس کی بین الاقوامی تفتیش ایک ’شرط‘ بن گئی ہے۔

ترکی کے وزیرخارجہ نے کہا کہ اس قتل کے کیس کو نہ تو بند کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس پر سمجھوتہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس موجود دلائل کو دیکھنے کے خواہش مندوں کو ہم نے دلائل دکھائے ہیں۔

ترکی کے وزیرخارجہ چاوش اولو نے قومی اسمبلی سے خطاب میں کہا کہ ہم کوئی فریب کاری نہیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترکی کے ہاتھ میں جو کچھ بھی ہے ا س کا بین الاقوامی برادری کے ساتھ تبادلہ کرنا ضروری ہے۔

عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق امریکہ نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے الزام میں مبینہ طورپر ملوث 17 سعودی باشندوں پر پابندیاں لگادی ہیں۔ اس پابندی کے تحت ان کے اثاثے بھی منجمد کیے گئے ہیں۔

خبررساں ادارے کا کہنا ہے کہ امریکی پابندی کی زد میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے سابق مشیر اورترکی میں سعودی قونصل جنرل بھی آئے ہیں۔

عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق امریکی حکومت نے ترکی کی جانب سے فراہم کی جانے والی خاشقجی قتل سے قبل کی آڈیو ریکارڈنگ سننے کے بعد سعودی باشندوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کی ہے۔

سعودی صحافی جمال خاشقجی کو دو اکتوبر 2018 کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں قتل کر دیا گیا تھا۔

اردو نیوز جدہ کے مطابق سعودی صحافی جمال خاشقجی کی غائبانہ نماز جنازہ جمعہ کو مسجد الحرام اور مسجد نبوی شریف میں ادا کی جائے گی۔

اخبار نے جمال خاشقجی کے صاحبزادے صلاح خاشقجی کے حوالے سے خبردی ہے کہ ان کے والد کی غائبانہ نماز جنازہ مسجد نبوی شریف میں جمعہ کے روز فجر کی نماز کے بعد اور مسجد الحرام میں جمعہ کی نماز کے بعد ادا کی جائے گی۔

سعودی صحافی جمال خاشقجی کو دو اکتوبر 2018 کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں قتل کر دیا گیا تھا۔


متعلقہ خبریں