پاکستان کو قانون کے ذریعے چلانا ہے یا اسٹریٹ پاور کے: جسٹس قاضی فائز

فوٹو: رائٹرز


اسلام آباد:  سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چئیر مین پمرا پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔

جمعہ کے روز عدالت عظمی کے دو رکنی بینچ نے فیض آباد دھرنا ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے شروع میں ڈپٹی اٹارنی جنرل  سہیل محمود نے عدالت سے استدعا کی کہ اٹارنی جنرل موجود نہیں اس لیے کیس کی سماعت  سماعت ملتوی کر دی جائے۔

اس پر بینچ کے رکن جسٹس فائز عیسی نے پوچھا اٹارنی جنرل کدھر ہیں ؟ انکی مرضی ہے آئیں یا نہ آئیں۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا اٹارنی جنرل لاہور میں ہیں انھیں چیف جسٹس نے ہدایت دی تھی کہ کچھ کیسز میں وہ لاہور آئیں۔

فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ یہ بھی توعدالت ہیں اور یہ تاریخ بھی اٹارنی جنرل کی خواہش پر دی تھی۔ پاکستان بند ہو گیا اس سے اہم کیس کیا ہو سکتا ہے۔ یہ مذاق نہیں ہے اٹارنی جنرل کو تنخواہ کون دیتا ہے؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عوام کے ٹیکس سے انھیں تنخواہ ملتی ہے۔

عدالت نے کہا کہ ٹیکس سے تنخواہ ملتی ہے تو وہ جوابدہ ہیں۔ اگر حکومت اس کیس کو نہیں چلانا چاہتی تو عدالت کو بتا دے۔

فائز عیسی نے استفسار کیا کہ بتایا جائے پاکستان کو فعال ریاست بنانا ہے یا اسے ہجوم نے چلانا ہے۔اگر کیس نہیں چلانا تو بتا دیں اسے دفن کر دیں۔ بتا دیں پاکستان کو قانون کے ذریعے چلانا ہے یا اسٹریٹ پاور کے؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ کیا پیمرا چینل کو ہدایات دیتا ہے؟ چیئرمین نے جواب دیا کہ جی دے رہا ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آپکی تنخواہ کتنی ہے؟ چیئرمین نے جواب دیا کہ  تین لاکھ روپے ۔

فائز عیسی نے کہا کہ کیا آپ کا احتساب نہیں ہو سکتا؟ یہ ملک کسی ایک شخص کی ملکیت نہیں ہے۔ یہ ملک آئین کے تحت چلنا ہے۔ فائز عیسی نے پوچھا کہ کیا میڈیا کو پیمرا کے علاوہ کوئی اور بھی ہدایات دیتا ہے؟ کیا آپ بتانے سے ڈرتے ہیں؟ میڈیا قوانین سے متعلق پہلی کتاب میں نے لکھی تھی۔مجھے بتائیں میڈیا کو ہدایات کون دیتا ہے؟ مجھے بتائیں کیا کوئی خفیہ طاقت ہدایات دیتی ہے؟

جسٹس فائز عیسیٰ نےریمارکس دیے کہ پاکستان میں ہر شخص آئین کے تابع ہے۔ کیا بیوروکریٹس کبھی آئین نہیں پڑھتے، آج کل ہم کس کو شہید بنا رہے ہیں۔ قائد اعظم کی تحریک پر امن تھی۔

عدالت نے چیئرمین پیمرا پر شدید اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آپ قانون نہ سکھائیں جو پوچھا جا رہا ہے وہ بتائیں۔ پیمرا نے کیبل آپریٹرز کے خلاف کیا ایکشن لیا؟ چیئرمین پیمرا نے جواب دیا کہ کیبل آپریٹرز پر 50 ہزار جرمانہ کیا۔ اس پر عدالت نے کہا کہ آپ نے اپنی رپورٹ میں اس کا کہیں ذکر نہیں کیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ آج اگر پیمرا کو بند کر دیں تو بہتری آئے گی یا خرابی ہو گی؟ آپ چیئرمین ہیں آپ کو پتہ ہی نہیں کہ خفیہ ہدایات آرہی ہیں۔بڑا آدمی چینل کو بند کرواسکتا ہے چھوٹا تو کروا نہیں سکتا۔ بڑے آدمی کے خلاف آپ کاروائی نہیں کر سکتے۔ جن لوگوں نے آگیں لگائیں ان کو خوب کوریج دلوائی گئی۔

قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پاکستان کے خلاف منفی تاثرات فوراً آن ائیر ہوتے ہیں۔ پیمرا سے سات لوگ عدالت میں آئے ہیں، جواب ایک بھی نہیں دے سکتا۔ قاضی فائز عیسیٰ نے چئیرمین پمرا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دکھ نہیں ہوتا آپ کو؟ آپ اپنے آفس کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ کوئی ثبوت ہے کہ آپ نے جرمانہ عائد کیا، آپ بار بار اپنے بیان بدل رہے ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ  پاکستان میں سچ بولنا تو کفر ہے چیئرمین صاحب آپ سچ نہ بدلیں۔

اس موقع پر عدالت میں موجود ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ چیئرمین پیمرا کے بیانات میں تضاد ہے۔ عدالت نے پوچھا کہ ٹی وی چینل کے خلاف پیمرا نے کیا ایکشن لیا۔ چیئرمین پیمرا نے جواب دیا کہ چینلز کو شوکاز نوٹسز اور جرمانے کیے۔ عدالت نے کہا کہ جرمانہ کرنے کا ثبوت دکھادیں۔ اس پر چئیرمیں پمرا نے کہا کہ ٹی وی چینلز کے خلاف کاروائی کونسل آف کمپلینٹ کرتی ہے۔

جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ بے کار کی باتیں نہ کریں، کس طرح کے چیئرمین ہے عدالت کو سوال کے جواب کے لیے جرح کرنا پڑ رہی ہے۔

عدالت نے الیکشن کمیشن، آئی ایس آئی اور پیمرا کی رپورٹس مسترد کر دیں۔ عدالت نے حکم دیا کہ  نئی رپورٹس جمع کرائی جائیں۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل اور سیکریٹری الیکشن کمیشن کو پیش ہونے کی ہدایت کر تے ہوئے کیس کی مزید سماعت جمعرات تک ملتوی کر دیں۔


متعلقہ خبریں