العزیزیہ ریفرنس: نوازشریف کی جی آئی ٹی رپورٹ مسترد کرنے کی استدعا

ارشد ملک نے جاتی امرا میں ملاقات کی من گھڑت تفصیلات بتائیں، نوازشریف

فوٹو: فائل


اسلام آباد: سابق وزیراعظم نوازشریف نے نیب کی جانب سے دائر العزیزیہ ریفرنس میں اپنان بیان ریکارڈ کراتے ہوئے استدعا کی ہے کہ جے آئی ٹی کی طرف سے اکٹھے کیے گئے نام نہاد شواہد اور رپورٹ کومسترد کیا جائے۔

احتساب عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ جے آئی ٹی محض تفتیشی ایجنسی سے زیادہ کچھ نہیں، جے آئی ٹی کی تحقیقات تعصب پر مبنی اور ثبوت کے بغیر تھیں۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کی تفتیش جانبدار تھی اور مروجہ طریقہ کار نہیں اپنایا گیا۔

نواز شریف نے عدالت کو بتایا کہ جے آئی ٹی نے صرف انکم ٹیکس ریٹرن، ویلیتھ اسٹیٹمنٹ اور ویلتھ ریٹرن جمع کرائی۔ انہوں نے کہا یہ عام فہم بات ہے کہ تفتیشی ایجنسی کے سامنے دیا گیا بیان عدالت میں بطور شواہد پیش نہیں کیا جاسکتا، جے آئی ٹی کی طرف سے قلمبند کئے گئے بیان کی قانون کی نظر میں کوئی وقعت نہیں۔

سابق وزیراعظم  نے اپنے بیان میں کہا کہ میرے ذاتی اکاؤنٹ میں آنے والے رقوم ایف بی آر کے ریکارڈ میں ظاہر ہیں۔

انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ سپریم کورٹ میں حسن اور حسین نواز کا کیس میں نے نہیں لڑا۔ سابق وزیراعظم کی زبان پھسل گئی اور کہا کہ حسن اور حسین نواز کا بیان میرے خلاف بطور شواہد پیش کیا جاسکتا ہے۔

معاون وکیل نے وکیل نے لقمہ دیا تو نوازشریف نے درستگی کرائی کہ میرے بیٹوں سے منسوب بیان میرے خلاف پیش نہیں کیا جاسکتا۔

سابق وزیراعظم نے کہا جذباتی انداز میں کہا ہے کہ مجھے آج تک سمجھ نہیں آیا کہ یہ کیس بنایا کیوں گیا، استغاثہ کو بھی معلوم نہیں ہو گا کہ کیس کیوں بنایا۔

انہوں نے کہا کہ  دنیا بھر کے بچے بیرون ملک پڑھتے اور کاروبار کرتے ہیں، میرے بچوں نے اگر مجھے پیسے بھیج دیے تو کون سا عجوبہ ہو گیا، میں وزیراعظم رہا ہوں میرے بچے یہاں کاروبار کریں تب مصیبت، باہر کریں تب مصیبت۔

نوازشریف نے سوالیہ انداز میں کہا کہ میرے بچوں نے ایسا کیا مختلف کیا ہے ؟ بچوں کے کاروبار سے متعلق نہ کوئی سرکاری رقم کی خرد برد، نہ کرپشن، نہ کِک بیک کا ثبوت ہے، میں خود سمجھنے سے قاصر ہوں کہ میرے خلاف کیس ہے کیا ؟

العزیزیہ میں اپنا بیان قلمبند کراتے ہوئے سابق وزیر اعظم نے بتایا کہ میرے والد 1937 سے کاروبار کر رہے تھے۔ میرے والد میرے پیدا ہونے سے پہلے کاروبار کر رہے ہیں۔

نیب پراسکیوٹر نے اعتراض اٹھایا کہ کیس یہ نہیں کہ بیرون ملک کیوں کاروبار کرتے ہیں؟ کیس یہ ہے کہ بیرون ملک کیسے کاروبار کرتے ہیں؟

نوازشریف نے جواب دیا کہ ہمیں پہلے 1971 میں دھکے دے کر نکالا گیا، پھر 1999 میں نکال دیا گیا، ہمیں حکومت دھکے نہ دیتی تو بچے یہاں کاروبار کر رہے ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ میرے بچے وہاں کاروبار نہ کرتے تو کیا بھیک مانگتے۔


متعلقہ خبریں