ایودھیا پہ جنونی ہندوؤں اور خوف کا راج، مسلمانوں کی نقل مکانی


اسلام آباد: ایودھیا ایک مرتبہ پھر جنونی اور انتہاپسند ہندوؤں کے فلک شگاف نعروں سے گونج رہا ہے اور مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کو سخت خوفزدہ کررہا ہے۔ بھارت سےشائع ہونے والے اردو اخبار ’قومی آواز‘ کے’ ہندو رپورٹر‘ نے خبردی ہے کہ خوف کے باعث اب تک تین ہزار  مسلمان نقل مکانی کرچکے ہیں جب کہ ہندو بھی ڈرے و سہمے ہوئے ہیں۔

آئندہ سال پارلیمانی انتخابات میں اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے ’ہوش کے ناخن‘ سے منہ موڑنے والی مودی سرکار نے گوکہ ایودھیا میں نیم فوجی دستے، انسداد فساد شکن فورس اورپولیس کو تعینات بھی کیا ہے لیکن عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق وہاں کے لوگوں میں یہ خوف نہایت شدت سے سرایت کررہا ہے کہ کیا وہ ایک مرتبہ پھر 1992 کے حالات کا سامنا کرنے جارہے ہیں۔

1992 میں شدت پسند ہندوؤں نے 16 ویں صدی میں تعمیر ہونے والی بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا۔ ایودھیا میں اس کے بعد ہونے والے شدید مذہبی فسادات کے نتیجے میں دو ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے تھے جن میں غالب اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق پورے ملک سے لاکھوں جنونی انتہا پسند ہندو ایودھیا پہنچ چکے ہیں اور ان کے جذبات کوہوا دینے کے لیے شیوسینا کے سربراہ اودھو ٹھاکرے بھی پہنچے ہیں۔ یہ ان کی وہاں پہلی مرتبہ آمد ہے۔

صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اترپردیش کے سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ ایودھیا میں فوج تعینات کی جائے.

مقامی انتظامیہ نے پولیس کے علاوہ، پی اے سی، آر ایف اے اور اے ڈی جی کی 48 کمپنیاں تعینات کی ہیں۔ اُترپردیش پولیس کے ترجمان ویوِک ترپاٹھی کا کہنا ہے کہ 900 سے زائد اضافی پولیس اہلکاروں کے علاوہ پیرا ملٹری فورس اور ایلیٹ کمانڈوز کو ایودھیا میں تعینات کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم پورے شہر پر سی سی ٹی وی اور ڈرون کیمروں کی مدد سے بھی نظر رکھے ہوئے ہیں۔

سیکیورٹی امور کے ماہرین کا اس ضمن میں ملین ڈالر سوال ہے کہ جہاں دو لاکھ سے زائد جنونی انتہاپسندی کے زعم میں مبتلا ہو کر جمع ہوں اور مخالفین کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا خواب دیکھ رہے ہوں تو وہاں صرف 900 کی نفری کافی ہوگی؟

برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ نے اپنے نمائندے کے حوالے سے لکھا ہے کہ ادھو ٹھاکرے کے جلسے میں ‘جے شری رام’، ‘مندر وہیں بنائیں گے’، ‘ہر ہندو کی یہی پکار، پہلے مندر پھر سرکار’ جیسے نعرے بار بار لگ رہے ہیں۔

بی بی سی کے نمائندے نے اپنے ادارے کو بھیجی گئی رپورٹ میں کہا ہے کہ مہاراشٹر کے بہت سے علاقوں سے شیو سینا کے کارکن ٹرین بک کروا کراور یا پھر بسوں، لاریوں و موٹر سائیکلوں کے ذریعے بھی ایودھیا پہنچے ہیں۔

نمائندے کا کہنا ہے کہ شوسینا کے کارکنان انتہائی جارحانہ نظر آ رہے تھے اور جوشیلے نعرے لگا رہے تھے۔

بی بی سی کے مطابق ادھو ٹھاکرے نے کہا کہ وہ نیند میں سوئی ہوئی حکومت کو بیدار کرنے کے لیے ایودھیا آئے ہیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ حکومت آرڈی نینس کے ذریعے مندر کی تعمیر کی تاریخ کا اعلان کرے۔

شیوسینا کے رہنما سنجے راؤت نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بابری مسجد کو منہدم کرنے میں صرف 17 منٹ لگے تھے تو مندر کی تعمیر کے لیے آرڈیننس جاری کرنے میں کتنا وقت لگے گا؟

نشریاتی ادارے ’ڈی ڈبلیو‘ کے مطابق ایودھیا سے بی جے پی کے منتخب رکن اسمبلی ببلو خان کا کہنا ہے کہ ایودھیا میں جمع ہونے والے ہندوؤں کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ ایودھیا میں ہندو مندر کی تعمیر کے لیے آئین میں ترمیم کی جائے۔

امریکی نشریاتی ادارے ’وی او اے‘ کے مطابق ایودھیا میں کشیدگی ہے۔ مقامی مسلمانوں میں زبردست خوف و ہراس ہے۔ بابری مسجد مقدمہ کے مدعی اقبال انصاری نے ایک اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ 3500 سے زائد مسلمان ایودھیا کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم یہاں امن چاہتے ہیں۔

وی او اے کے مطبق ایودھیا  کے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ حالات 1992 جیسے ہی ہیں اور ہم اس دن کو نہیں بھول پائے ہیں۔

ایک سینئر تجزیہ کار پروفیسر اپوروانند نے امریکی نشریاتی ادارے کے سوال کے جواب میں کہا کہ  وشو ہندو پریشد اور شیو سینا کے پروگراموں کا مقصد ملک میں بدامنی پھیلانا ہے۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ لوگ ایک عرصے سے وہاں لوگوں کو اکٹھا کر رہے ہیں جس کی وجہ سے پورے ملک میں کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔

پروفیسر نے کہا کہ حکمراں طبقہ حالات کو خراب کر رہا ہے تاکہ اس سے ’سیاسی فائدہ‘ اٹھایا جا سکے۔ ان کے مطابق بی جے پی، وشو ہندو پریشد اور آر ایس ایس کو آئین و قانون پر بھروسہ نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ کا کہنا ہے کہ دہلی میں بعض مسلم تنظیموں کا ایک اجلاس ہو رہا ہے جس میں اس معاملے پر صدر سے ملاقات کے امکان پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔

مسلمانوں اور ہندوؤں کی جانب سے اس ضمن میں سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا جا چکا ہے لیکن بھارت کی اعلیٰ ترین عدالت بھی فیصلہ کرنے کے بجائے وقت لے رہی ہے جس کی وجہ سے کشیدگی عروج پر پہنچ رہی ہے۔


متعلقہ خبریں