پی ٹی آئی کے 100 دن: وزیراعظم جمعرات کو قوم سے خطاب کرینگے

وزیراعظم نے مشاورت مکمل کرلی، کابینہ میں بڑے پیمانے پر ردوبدل کا امکان

فوٹو: فائل


اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان 29 نومبر 2018 کو قوم سے خطاب کریں گے جس میں وہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی 100 روزہ کارکردگی سے عوام الناس کو آگاہ کریں گے۔

یہ بات پی ٹی آئی کے سینیٹر فیصل جاوید نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر جاری کردہ اپنے ایک پیغام میں کہی۔

ان سے قبل وفاقی وزیراطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان 29 نومبر کو قوم سے خطاب میں حکومت کی 100 روزہ کارکردگی سے قوم کو آگاہ کریں گے۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے اپنی پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے گزشتہ 100 دنوں میں 34 بڑے اقدامات اٹھائے ہیں۔

مملکت خداد میں ’تبدیلی کی لہر‘ کو تین ماہ مکمل ہوچکے ہیں۔ اس عرصے کے دوران پاکستانی ذرائع ابلاغ کا رویہ موجودہ حکومت کے ساتھ کافی بہتر رہا ہے کیونکہ ایسے اخبارنویسوں، تجزیہ کاروں اور کالم نگاروں کی تعداد بہت زیادہ ہے جنھوں نے تقریباً 100 روز قبل یہ عہد کیا تھا کہ وہ آئندہ تین ماہ تک حکومتی اقدامات پر نکتہ چینی نہیں کریں گے البتہ اس دوران بعض ایسے موضوعات ضرور منظر عام پر آئے جن پہ ’شاید‘ خاموش رہنا نا ممکن تھا تو ان پہ تنقید ہوئی۔

یقیناً یہ حکومتی ناتجربہ کاری تھی کہ کچھ پالیسیوں پر جب لوگوں نے قول و فعل میں تضاد پایا تو وہ ’جذباتی‘ ہوگئے مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عمران خان کو کہنا پڑا کہ ’یوٹرن‘  کامیاب ’لیڈر‘ ہی لیتا ہے۔

دلچسپ امر ہے کہ وزیراعظم کی وضاحت پی ٹی آئی حکومت کو تنقید کے گرداب سے نکالنے کے بجائے اسے مزید نکتہ چینی کے ’بھنور‘ میں دھکیل گئی جہاں سے وہ ابھی تک نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتی نظر آرہی ہے۔

معیشت

پاکستان میں یہ وطیرہ رہا ہے کہ ہر نئی آنے والی حکومت ملکی خزانے کی بدحالی کا رونا روتی ہے اور سابقہ حکومتوں پر اس کا الزام تھوپتی ہے۔ قوم یہ بھی دیکھتی آئی ہے کہ ہر نئی حکومت عالمی مالیاتی اداروں کے پاس قرض لینے جاتی رہی ہے لیکن موجودہ حکومت سے قوم کو امید تھی کہ وہ ایسا نہیں کرے گی کیونکہ انتہائی جذباتی انداز میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے انتخابات سے قبل یہ اعلان کیا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس جانے بہتر خودکشی کو سمجھیں گے۔

پی ٹی آئی کی حکومت نے برسراقتدار آتے ہی معاشی ماہرین کی رائے کو ’نظرانداز‘ کرنے کا تاثر دیا اور وزیراعظم ہاؤس کی گاڑیوں اور بھینسوں کی ’نیلامی‘ کو توجہ کا مرکز بنایا مگر پھر جب تلخ لیکن سچائی مبنی حقیقت منہ کھول کر سامنے آئی تو حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس جانے کا اعلان کر دیا۔

موجودہ حکومت کے وفاقی وزیرخزانہ اسد عمر واحد رکن کیبنٹ ہیں جنہیں الیکشن جیتنے سے قبل ہی آئندہ کا وزیرخزانہ کہا جاتا تھا اور اس حوالے سے وہ معاشی تجزیے بھی پیش کرتے تھے۔ ان کا اسمبلی کے فلور پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے متعلق جو کچھ کہنا تھا، اس کے انہوں نے بالکل الٹ کیا جب خود منی بجٹ پیش کیا۔

وفاقی وزیرخزانہ نے جب پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا تو وہ یکسر بھول گئے کہ حکومت میں آنے سے قبل کیا کہتے تھے؟ بالکل اسی طرح انہوں نے گیس و بجلی کے نرخوں میں کئی سو گنا اضافہ کرتے ہوئے فراموش کردیا کہ ان کا دعویٰ کیا تھا؟

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے جس بڑے پیمانے پر اشیائے خوردو نوش، بچوں کے دودھ و ڈائپرز، موبائل فونز، کاسمیٹکس، سگریٹس، ادویات اور دیگر اشیا پر ٹیکسز نافذ کیے اس نے بعض ماہرین کے نزدیک سابقہ حکومتوں کے بھی ریکارڈ توڑ دیے ہیں نتیجتاً ہونے والی مہنگائی کے طوفان نے غریب و متوسط طبقے کی ’چیخیں‘ نکال دی ہیں۔

ٹی وی ٹاک شوز میں اسد عمر تسلسل کے ساتھ 200 بلین ڈالرز کا ذکر کرتے آئے تھے جو پاکستانیوں نے سوئس بینکوں میں محفوظ کررکھے تھے مگر اب وہ وعدے و دعوے بھی ’ہوا‘ میں تحلیل ہو چکے ہیں۔

معاشی محاذ پرحکومت کو اس وقت بھی سبکی کا سامنا کرنا پڑا جب اس نے عاطف میاں کو اقتصادی مشاورتی کمیٹی کا رکن مقرر کیا اور پھر پڑنے والے دباؤ کی وجہ سے وہ فیصلہ واپس لیا۔

سی پیک

پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) ایک ایسا منصوبہ ہے جس پر ملک کی سیاسی و عسکری قیادت مکمل یکسو ہے۔ اس منصوبے پر حزب اختلاف کی جماعتیں بھی حکومتی ہمنوا رہی ہیں لیکن پی ٹی آئی کی حکومت جب برسراقتدار آئی تو اس کے مشیر برائے کامرس رزاق داؤد کا ایک انٹرویو اس وقت غیر ملکی اخبار میں شائع ہوا جس میں منصوبے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔

یہ انٹرویو اس وقت منظر عام پر آیا تھا جب چین کے وزیر کا دورہ پاکستان جاری تھا۔ اس انٹرویو پر حکومت کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور اسے وضاحتیں پیش کرنا مشکل ہوگیا۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے اس کے بعد چین کے سفیر نے ملاقات بھی کی۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے بھی وضاحت جاری کی۔

پاکستان کے سیاسی و بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کا خیال ہے کہ رزاق داؤد کے انٹرویو سے نقصان ضرور ہوا۔

سیاسی و سماجی محاذ

آسیہ مسیح کے متعلق جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تو احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ وزیراعظم نے اس موقع پر خود ٹی وی پہ خطاب کیا اور مظاہرین کو سخت تنبیہ کی اور ساتھ ہی خبردار کیا کہ ریاست کو مجبور نہ کریں کہ وہ ایکشن لے۔

وزیراعظم کے خطاب کی بھرپور پذیرائی کا سلسلہ شروع ہوا اور سوشل میڈیا پر تعریفوں کے ’ڈونگرے‘ بجائے جانے لگے تو اچانک وہ چین کے دورے پر چلے گئے جب کہ حکومت جو آنکھیں دکھارہی تھی اچانک ’یوٹرن‘ لے کر مفاہمت کی بانسری بجاتی دکھائی دینے لگی۔

تین دن کے احتجاج کے بعد جب حکومت نے معاہد ہ کیا تو اس پر جو تنقید ہوئی اور جس طرح کی آوازیں کسی گئیں وہ بہت زیادہ تھیں۔ یقیناً! حکومت کو لگنے والے وہ زخم بھرنے میں وقت لگے گا۔

عمران خان حکومت کو سب سے پہلا ’جھٹکا‘ تو ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے سے پڑا جس کے بعد سابق آئی جی کے پی ناصر درانی کا استعفیٰ موضوع بحث بنا، آئی جی پنجاب کی تبدیلی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اورپھر رہی سہی کسر آئی جی اسلام آباد کے تبادلے نے پوری کردی۔

وفاقی وزیر اعظم خان سواتی کا رویہ اور اثر و رسوخ کے استعمال نے بھی پی ٹی آئی حکومت پر بہت سے سوالیہ نشانات ثبت کیے ہیں۔

سابقہ حکومتوں کو شاہ خرچیوں کا طعنہ دینے والے وزیراعظم عمران خان اب اپنے گھر سے دفتر جانے کے لیے ہیلی کاپٹر استعمال کرتے ہیں تو یقیناً میڈیا سوالات پوچھتا ہے۔

فواد چوہدری وفاقی وزیراطلاعات و نشریات نے تو وضاحت دیتے ہوئے جب کہا کہ ہیلی کاپٹر کا سفر 50 سے 55 روپے فی کلومیٹر پڑتا ہے تو وہ ’ضرب المثل‘ بن گیا اور آج بھی محاورے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ وہ ابتدا کے چھ ماہ تک کوئی بیرونی دورہ نہیں کریں گے مگر صرف تین ماہ میں نصف درجن دورے کرچکے ہیں۔

وزیراعظم کی جانب سے صدر مملکت کی رہائش گاہ، وزیراعظم ہاؤس، گورنر ہاؤسز اور وزیراعلیٰ ہاؤسز کے متعلق جو کچھ کہا گیا تھا وہ تاحال ہوا میں معلق ہے اور عوام ان وعدوں کی تکمیل کے منتظر ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں جب ان کے اتحادی اور ممتاز عالم دین مولانا سمیع الحق کو راولپنڈی میں بہیمانہ طریقے سے شہید کیا گیا، حاضر سروس ایس پی طاہر داوڑ کو اسلام آباد سے اغوا کرکے نہ صرف افغانستان لے جایا گیا بلکہ وہاں بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر شہید کردیا گیا اور کراچی میں چین کا قونصل خانہ ٹارگٹ ہوا تو پھر حکومت کے سیکیورٹی اقدامات پر بھی سوالات کیے جانے لگے ہیں۔

حکومتی وعدوں و دعوؤں کے برعکس اہم حکومتی شخصیات کے پروٹوکول سے متعلق خبریں بھی روزآنہ میڈیا کی زینت بن رہی ہیں۔


متعلقہ خبریں