بلین ٹری منصوبہ: رحمت یا زحمت؟


دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلی کے آثار رونما ہونا شرو ع ہو گئے ہیں،ایسی صورتحال کا تدارک کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کے پی کے میں ہنگامی بنیادوں پر ایک ارب درخت لگانے کا منصوبے کا اعلان کیا ،مگر جو منصوبہ رحمت کے طور پر دیکھا جا رہا تھا وہ ایک زحمت کی صورت اختیار کرتا جا رہا  ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ماہرین کے خدشات، ماضی کے تجربات اور بار بار عائد کی جانے والی حکومتی پابندیوں کے باوجود خیبر پختونخوا میں بڑے پیمانے پر یوکلپٹس کے درخت لگائے گئے ہیں جبکہ اس کو اب پورے ملک میں لگانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔

فارسٹری اور ماحولیات کے ماہر اور مختلف بین الاقوامی تنظیموں میں خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر غلام اکبر نے بی بی سی کو بتایا کہ یوکلپٹس کو صرف مخصوص حالات اور مخصوص مقامات ہی پر لگا کر اس سے فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے، جس میں سیم زدہ علاقے، ایسے علاقے جہاں پر تودے گرنے کا بہت زیادہ خطرہ ہو، جہاں قریب میں فصلیں کاشت نہ کی جاتی ہوں اور دیگر اقسام کے درخت نہ لگائے جاتے ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یوکلپٹس کے پتوں میں معمولی سا زہریلا پن ہوتا ہے جس وجہ سے پرندے وغیرہ اس علاقے میں جانے سے کتراتے ہیں اور اس پر گھونسلے نہیں بناتے، پانی کو بہت تیزی سے اپنی جانب کھینچتا ہے جس وجہ سے فصلوں اور باغات کو نقصان پہنچاتا ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ ایسے علاقے جہاں پر حیاتیاتی تنوع موجود ہو وہاں پر بھی اس درخت کا لگایا جانا مناسب نہیں ہے۔

ڈاکٹر غلام اکبر کے مطابق: ‘اگر اس کو سیم اور لینڈ سلائیڈنگ کے علاوہ کسی اور علاقے میں لگایا جائے تو یہ بہت بڑی غلطی ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یوکلپٹس لگانے سے گرین گولڈ کا خواب پوا نہیں ہو سکتا، گرین گولڈ کے لیے مقامی درختوں ہی پر انحصار کرنا ہوگا جو کہ ہمارے ماحول سے مطابقت رکھتے ہیں۔‘

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں بلین ٹری سونامی پروجیکٹ کے تحت کل 24 کروڑ درخت لگائے گئے ہیں، جن میں چیڑ (جو پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں بکثرت پایا جاتا ہے) کے سب سے زیادہ یعنی 5.1 کروڑ درخت شامل ہیں جو کل لگائے گئے درختوں کا تقریباً 21 فیصد بنتا ہے۔

ماہرین کے مطابق چیڑ کی اگر مناسب دیکھ بھال کی جائے تو اس کی کامیابی کا تناسب 50 فیصد ہوتا ہے جبکہ دوسرے نمبر پر حیرت انگیز طور پر آسڑیلیا سے منگوائے گئے یوکلپٹس کے درخت ہیں جس کے 2.66 کروڑ پودے لگائے گئے ہیں جو کل تعداد کا تقریباً 11 فیصد بنتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق یوکلپٹس کی کامیابی کا تناسب 90 فیصد ہے مگر یہ پاکستان اور بالخصوص صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقوں کے لیے غیر موزوں اور ماحول دشمن درخت ہے۔

دستیاب سرکاری ڈیٹا کے مطابق مقامی طور پر انتہائی کار آمد اور ماحول دوست درخت بیری کا درخت (Zizyphus nummularia) ہے جس سے بیری کا شہد حاصل کیا جاتا ہے اور یہ صوبہ خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع کے علاوہ گرم علاقوں کا مقامی درخت ہے۔

اس کے درختوں کا تناسب صرف 0.7 فیصد ہے۔ اسی طرح مقامی چلغوزہ، املوک، ریٹا اور دیودار جیسے ماحول دوست اورنفع بخش درختوں کے لگائے جانے کا تناسب مجموعی طور پر اڑھائی فیصد بھی نہیں بنتا۔

صوبہ خیبر پختونخوا محکمہ جنگلات کے اعلیٰ اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ یوکلپٹس کو بہت جلد نتائج دینے کے دباؤ تلے لگایا گیا ہے کیونکہ حکومت یہ چاہتی تھی کہ بلین سونامی کے نتائج بہت جلد عوام تک پہنچ جائیں اور یوکلپٹس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ دیگر مقامی درختوں کی نسبت سے جلد توانا ہو جاتا ہے اور اس کی کامیابی کا تناسب بھی دیگر درختوں کے مقابلے میں دوگنا ہے کیونکہ اس کے پتوں کو کوئی بھی جانور اور مال مویشی منھ نہیں لگاتے۔

واضح رہے کہ پنجاب اور بلوچستان میں یوکلپٹس پر سنہ 1980، 1990 اور 2000 کی دہائی کے آغاز میں تین مرتبہ ماحول دشمن قرار دے کر پابندی لگائی گئی تھی۔ مگر ہر مرتبہ یہ پابندی غیر اعلانیہ طور پر ختم کی گئی جس کی وجہ کبھی بھی نہیں بتائی گئی۔

بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کے ترجمان کا موقف ہے کہ یوکلپٹس زیادہ تر سیم والے علاقوں میں لگایا گیا ہے اور یہ جلد نتائج دینے والا درخت ہے جس کو مقامی کاشت کاروں اور زمینداروں کے مطالبے پر لگایا گیا ہے اور اس کے کوئی خاص نقصانات بھی نہیں ہیں۔


متعلقہ خبریں