چینی پروفیسر کی انسانی جینز میں ردوبدل کی کوشش؟


تجسس انسانی فطرت کا ایک اہم حصہ ہے، اسی کے باعث انسان کسی بھی نئی چیز کی دریافت کی طرف پہلا قدم بڑھاتا ہے لیکن بعض اوقات کچھ نیا کرنے کی جستجو سائنسدانوں کو بھی بہت سے ایسے اقدام کی طرف لے جاتی ہے جو کہ غیر فطری ہوتے ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق چین کے چند پروفیسرز نے مبینہ طور پر انسانی جینز میں چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کی۔

ایک چینی سائنس دان کے بیان کے بعد شکوک و شبہات سامنے آ رہے ہیں کہ آیا انہوں نے واقعی ایسے بچے پیدا کیے ہیں جن کے جینز میں ردوبدل کیا گیا ہے۔

اس ضمن میں ایک پروفیسر ہے جیانکوئی کا کہنا ہے کہ چند ہفتے قبل پیدا ہونے والی دو جڑواں بچیوں کے ڈی این اے میں ایچ آئی وی جیسے مرض سے بچاؤ کے لئے ایسی تبدیلیاں کی گئی تھیں کہ انہیں یہ انفیکشن لاحق نہ ہو سکے۔

ان کے اس اقدام کے بارے میں کوئی حتمی ثبوت منظر عام پر نہیں آ سکے تاہم ان کے حلقے کے دیگر سائنس دانوں نے اس عمل کی سختی سے مخالفت کی اور اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ خیال ہی وحشیانہ ہے۔

واضح رہے کہ انسانوں کے ڈی این اے میں کسی بھئ قسم کا ردوبدل غیرا خلاقی تصور کیے جانے کے باعث اکثر ممالک میں ممنوع ہے۔

خاندانی اور موروثی بیماریوں سے نجات کے لئے بچے کے جینز میں اسی وقت ردوبدل ممکن ہے جب بچہ ابھی ماں کے پیٹ ہی میں ہو۔

تاہم ماہرین کے مطابق اگر کسی جنین کے ڈی این اے میں کاٹ پیٹ کی جائے تو اس کا اثر نہ صرف اس بچے پر پڑے گا بلکہ یہی تبدیلیاں اگلی نسلوں میں بھی منتقل ہو کر مضر ثابت ہو سکتی ہیں۔

تاہم سائنس دانوں کو ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے ایسے جنین پر تحقیق کی اجازت ہے جنھیں ترک کر دیا گیا ہو اور انھیں بچہ پیدا کرنے کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔

تاہم پروفیسر ہے کا کہنا ہے کہ انھوں دو بچیاں ‘لولو’ اور ‘نینا’ نامی ایسی پیدا کی ہیں جن کے ڈی این اے میں ردوبدل کیا گیا تھا۔

انھوں نےدعویٰ کیا کہ انھوں نے بچیوں کے ڈین این اے میں CCR5 نامی جین کاٹ کر الگ کر دیا جس کی وجہ سے انھیں آیندہ ایچ آئی وی کا انفیکشن نہیں ہو گا۔

انھوں نے کہا: ‘مجھے پتہ ہے کہ میرا کام متنازع ہو گا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ لوگوں کو اس کی ضرورت ہے اور میں اس کے لیے تنقید برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں۔’

تاہم انھوں نے جن تنظیموں اور ایک اسپتال میں یہ کام کیا تھا انھوں نے تردید کی ہے کہ انھوں نے اس تحقیق میں حصہ لیا تھا۔

ماہرین نے اس تحقیق کی اخلاقیات پر سوال اٹھایا ہے، اگر واقعی یہ کام ہوا ہے۔

کنگز کالج لندن میں سٹیم سیل پر تحقیق کے ماہر ڈاکٹر ڈسکو الک نے کہا: ‘اگر اسے اخلاقی کہا جائے تو پھر اس کی اخلاقیات بقیہ دنیا سے مختلف ہیں۔’

انھوں نے کہا کہ ایچ آئی وی ویسے بھی قابلِ علاج مرض ہے اور اس کے لیے والدین کو اپنے بچوں کے ڈی این اے میں تبدیلیاں کروانے کی ضرورت نہیں ہے۔


متعلقہ خبریں