العزیزیہ کیس میں کسی الزام کا ثبوت پیش نہیں کیا گیا، وکیل نواز شریف

فوٹو: فائل


اسلام آباد: احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس میں خواجہ حارث کے حتمی دلائل جاری ہیں۔ خواجہ حارث نے کہا ہے کہ نواز شریف پر لگائے گئے کسی بھی الزام کا ثبوت عدالت میں پیش نہیں کیا گیا ہے۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل مل اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنسز کی سماعت جاری ہے اور نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث حتمی دلائل سے رہے ہیں۔

خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ العزیزیہ اسٹیل مل کی ملکیت پر سوال اٹھایا گیا اور نواز شریف کو بے نامی دار مالک کہا گیا جب کہ استغاثہ بے نامی دار سے متعلق ٹھوس شواہد پیش کرنے میں ناکام رہی۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ العزیزیہ اسٹیل مل 2001 میں قائم ہوئی تھی جس وقت حسین نواز 29 برس کے تھے جب کہ بیٹے کے نواز شریف کے زیر کفالت ہونے سے متعلق کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔

خواجہ حارث نے دلائل جاری رکھتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کا کیس ہے کہ نواز شریف نے بے نامی کے طور پر جائیدادیں بنائیں لیکن بے نامی ٹرانزیکشن کے حوالے سے استغاثہ کوئی ثبوت نہ لا سکا۔ بیٹے نے ہل میٹل کی رقوم نواز شریف کو بھیجیں، صرف اس بات سے بے نامی کے تمام اجزا پورے نہیں ہوتے۔

نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ العزیزیہ سے کوئی رقوم نواز شریف کو نہیں بھیجی گئیں اور نواز شریف کا پہلے دن سے ایک ہی موقف رہا ہے کہ ہل میٹل کی رقوم سے متعلق جے آئی ٹی نے کوئی تحقیقات نہیں کی ہیں۔ نواز شریف کو بے نامی مالک کہہ دیا گیا لیکن کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے جب کہ العزیزیہ اسٹیل مل کے قیام کے وقت نواز شریف کے پاس کوئی عوامی عہدہ نہیں تھا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف نے کبھی بھی گلف اسٹیل کی فروخت پر انحصار نہیں کیا اور اُن کے پاس تو گلف اسٹیل کی کوئی براہ راست معلومات بھی نہیں تھیں جب کہ جے آئی ٹی نے خود اپنی رپورٹ میں لکھا کہ گلف اسٹیل سے متعلق نواز شریف نے سنی سنائی باتیں کہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قطری خطوط کے بارے میں کہا گیا کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں اور نواز شریف نے خود بھی کبھی قطری خطوط پر انحصار نہیں کیا۔ قطری خطوط صرف حسین نواز کی جانب سے ہی تھے اور شواہد کے مطابق عباس شریف، رابعہ شریف اور حسین نواز العزیزیہ کے شئیر ہولڈرز تھے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ قانون کی تعریف کے مطابق بے نامی وہ ہوتا ہے جو کسی اور کی جائیداد اپنے پاس رکھتا ہے۔ ملزم کو صرف اس جائیداد سے کوئی فائدہ ملنا اُسے مالک نہیں بنا دیتا ہے۔

عدالت نے نوازشریف کی آج حاضری سے استثنی کی درخواست پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے۔ میں کچھ کہتا نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ روز استثنیٰ کی درخواست دائر کر دیں۔ میرا خیال تھا کہ سپریم کورٹ میں پیشی کے بعد نوازشریف یہاں پیش ہوں گے۔

عدالت نے نوازشریف کو فلیگ شپ ریفرنس میں بیان قلمبند کرانے کے لیے بدھ کو طلب کرتے ہوئے آج کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کر لی۔ العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت بدھ تک ملتوی کردی گئی۔

گزشتہ سماعت میں نوازشریف نے قومی احتساب بیورو(نیب) کی جانب سے دائر فلیگ شپ ریفرنس میں بقیہ 78 سوالوں کا جواب جمع کرا دیا تھا جب کہ العزیزیہ ریفرنس میں نیب پراسیکیوٹر نے دلائل مکمل کیے تھے۔ سابق وزیراعظم کی جانب سے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دی گئی جسے منظور کرلیا گیا تھا۔

گزشتہ سماعت میں نیب پراسیکیوٹر واثق ملک کا کہنا تھا کہ ملزمان نے 1970 کا ریکارڈ فراہم کیا لیکن 2001 کا نہیں دے رہے، نیب پراسیکیوٹر کا یہ بھی کہنا تھا کہ گلف اسٹیل مل کے 25 فیصد شئیرز فروخت کا معاہدہ جعلی تھا۔

معزز جج ارشد ملک نے ریمارکس دیے تھے کہ بطور وزیراعظم نواز شریف کا حق بنتا تھا کہ وہ بچوں سے پوچھتے کہ اتنے پیسے کہاں سے آئے۔


متعلقہ خبریں