سانحہ ماڈل ٹاؤن، سپریم کورٹ نے نئی جے آئی ٹی بنانے کا حکم دے دیا



اسلام آباد: سپریم کورٹ پاکستان نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں نئی جے آئی ٹی بنانے کا حکم دے دیا ہے۔

سپریم کورٹ میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔

عدالت نے پنجاب حکومت کی جانب سے نئی جے آئی ٹی تشکیل دینے کی رضا مندی پر درخواست نمٹا دی۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے لئے کوئی مقدمہ سیاسی نہیں ہوتا ہے۔ طاہر القادری صاحب کیا آپ قانونی نکات پر دلائل دے سکیں گے ؟

ڈاکٹر طاہر القادری نے مؤقف اختیار کیا کہ قانونی نکات پر میرے وکلاء ہی بات کریں گے۔ پولیس کی ایف آئی آر نمبر 510 تھانہ فیصل ٹاؤن میں درج ہے جس کو ہم نہیں مانتے ہیں جب کہ دوسری ایف آئی آر دو ماہ دس بعد درج کرائی تھی اور 16 مارچ 2016 کو نجی شکایت بھی درج کرائی گئی تھی۔

طاہر القادری نے کہا کہ ایف آئی آر پولیس نے درج کی تھی جس پر ہم مطمئن نہیں تھے جب کہ محمد جواد حامد نے نجی شکایت درج کرائی تھی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں اس کا ٹرائل چل رہا ہے جب کہ جے آئی ٹی کون سی ایف آئی آر پر بنی تھی ؟

طاہر القادری نے مؤقف اختیار کیا کہ پہلے پولیس کی ایف آئی آر پر جے آئی ٹی بنی تھی پھر ہماری ایف آئی آر پر بنائی گئی تھی جب کہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب کے حکم پر جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں ایک جوڈیشل کمیشن بنا تھا جس کی رپورٹ خفیہ رکھی گئی اور ہائی کورٹ کی اجازت کے بعد ہمیں رپورٹ ملی تھی۔

چیف جسٹس کی جانب سے گواہان سے متعلق پوچھے گئے سوال پر طاہر القادری نے کہا کہ ہماری درخواست پر 125 گواہان کے بیان ریکارڈ کرنے ہیں جب کہ آپ نے لارجر بنچ بنا کر انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا ہے اب یتیموں کو ساڑے چار سال بعد انصاف کی فراہمی کا یقین ہوا ہے۔

طاہر القادری نے کہا کہ چار سال تک ملزم اقتدار میں تھے اور آج تک ہمیں انصاف نہیں ملا ہے۔ کیا ہم نہتے کشمیری تھے جو ہم پر گولیاں چلائی گئی تھیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں کہہ چکا ہوں روزانہ کی بنیاد پر ٹرائل کریں لیکن آپ نے درخواست دی کہ روزانہ کی بنیاد پر سماعت نہ ہو۔

طاہر القادری نے مؤقف اختیار کیا کہ ہم درخواست لے کر آئے ہیں کہ اس کیس کی تفتیش نہیں ہوئی اور ہم دوبارہ تفتیش کے لیے آئے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا دونوں جے آئی ٹی میں زخمیوں کے بیان ریکارڈ نہیں ہوئے تھے ؟ زخمیوں سے زیادہ بہتر کوئی گواہی نہیں دے سکتا۔

اعظم نذر تارڑ نے مؤقف اختیار کیا کہ زخمیوں کو نوٹس جاری ہوئے لیکن وہ پیش نہیں ہوئے جب کہ جے آئی ٹی میں بلوچستان سے افسران لیے گئے تھے۔

 


متعلقہ خبریں