امریکہ مسئلہ افغانستان کے حل کے لیے پاکستان سے تعاون بڑھانے پر آمادہ

فوٹو: فائل


اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان، افغانستان میں قیام امن اور مفاہمت و مصالحت کے لیے سیاسی حل کا حامی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ذاتی طور پر خطے میں قیام امن کے لیے عرصے سے پرعزم ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اورامریکہ کے درمیان تجارت، سرمایہ کاری، تعلیم اور صحت سمیت سوشل سیکٹر میں باہمی رابطوں کو بڑھانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

ہم نیوز کے مطابق انہوں نے یہ بات امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے مفاہمتی عمل افغانستان زلمے خلیل زاد سے بات چیت کرتے ہوئے کہی۔

پاکستان کے دو روزہ دورے پر گزشتہ روز اسلام آباد پہنچنے والے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد چار رکنی وفد کی قیادت کررہے ہیں۔ آمد کے فوری بعد وزارت خارجہ میں پاکستان کی سیکریٹری تہمینہ جنجوعہ سے ان کی ملاقات ہوئی تھی جس میں تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔

ہم نیوز کے مطابق زلمے خلیل زاد نے دوران ملاقات وزیراعظم عمران خان کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نیک خواہشات کا پیغام بھی پہنچایا۔

ذرائع کے مطابق امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نےوزیراعظم کو بتایا کہ امریکی قیادت افغان مسئلے کے پرُامن حل کے لیے  پاکستان سے باہمی تعاون بڑھانا چاہتی ہے۔

ہم نیوز کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے زلمے خلیل زاد سے بات چیت میں کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کےخط میں مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے مل کر کام کرنے کی یقین دہانی کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے امریکی نمائندہ خصوصی برائے مفاہمتی عمل افغانستان زلمے خلیل زاد سے بات چیت میں زور دے کر کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان مسلسل رابطوں کی ضرورت ہے۔

امریکی نمائندہ خصوصی برائے مفاہمتی عمل افغانستان زلمے خلیل زاد نے گزشتہ روز پاکستانی وزارت خارجہ میں اعلیٰ حکام سے ملاقات کے بعد پاکستان کے وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی سے بھی ملاقات کی تھی۔

امریکی رویے میں آنے والی ’بنیادی‘ تبدیلی کی وجہ یہ ہے کہ ایک جانب ’سپرپاور‘ کو یقین آگیا ہے کہ وہ پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان میں مفاہمتی عمل آگے نہیں بڑھا سکتا ہے تو دوسری جانب اب امریکہ نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکنے والی افغان جنگ سے خود کو نہایت ’سنجیدگی‘ سے علیحدہ بھی کرنا چاہتا ہے۔

عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق واشنگٹن میں موجود سیاسی مبصرین اور امریکی دانشوروں کا اب یہ ماننا ہے کہ طویل مدت کے دوران لامحدود اخراجات کے باوجود افغانستان سے انہیں مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوسکے ہیں۔ اس ضمن میں امریکی حکومت پر ہونے والی تنقید میں گزشتہ دنوں بے پناہ شدت آئی ہے۔

امریکی سینیٹ کی آرمڈ فورسز کمیٹی میں گزشتہ وز امریکی جنرل میکنزی نے کہا ہے کہ افغان جنگ میں پیشرفت نہیں ہورہی ہے اور بڑی تعداد میں افغان فوجیوں کی اموات ناقابل برداشت ہیں۔

انہوں نے خبردار کیا کہ افغانستان سے اچانک انخلا یا حکمت عملی میں تبدیلی نقصان دہ ہوگی۔

عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق جنرل میکنزی کا کہنا تھا کہ نہیں معلوم کہ افغان فوج کو صلاحیت حاصل کرنے میں مزید کتنا وقت لگے گا؟ انہوں نے اعتراف کیا کہ ابھی افغانستان چھوڑا توافغان افواج کامیابی سے اپنا دفاع نہیں کرسکے گی۔

طالبان سے مذاکرات کے متعلق جنرل میکنزی کا کہنا تھا کہ افغان طالبان بھی جمود کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ زلمے خلیل زاد کی امن مذاکرات کی کوشش امر یکہ کے لئے نیا موقع ہے۔

پینٹاگون میں گزشتہ روز امریکی سیکریٹری دفاع جیمز میٹس نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ 40 سال افغان جنگ کے لئے بہت زیادہ ہیں۔

افغان جنگ کا براہ راست طویل تجربہ رکھنے والے جیمز میٹس اب وقت آگیا ہے کہ افغان امن کے سلسلے میں تعاون کیا جائے۔

واضح رہے زلمے خلیل زاد پاکستان سمیت آٹھ ممالک کے دورے پر ہیں جس کے دوران وہ افغانستان، روس، ازبکستان، ترکمانستان، بیلجیئم، متحدہ عرب امارات اور قطر بھی جائیں گے۔

امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے اکتوبر میں بھی پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے میں ان کی وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی سے ملاقات ہوئی تھی۔


متعلقہ خبریں