بابری مسجد کی شہادت کو بیتے 26 برس، ایودھیا میں خوف و ہراس


اسلام آباد: بھارتی ریاست اترپردیش میں واقع ایودھیا میں ضلعی انتظامیہ نے دفعہ 144 نافذ کرکے سیکیورٹی کے حوالے سے انتہائی سخت انتظامات کیے ہیں لیکن اس کے باوجود عوام میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔

ایک ہفتہ قبل ہی انتہاپسند ہندوؤں کے نعروں سے علاقہ نہ صرف گونج رہا تھا بلکہ مسلمانوں سمیت پرامن ہندو بھی ڈرے سہمے دبکے ہوئے تھے اوران پہ لرزاں طاری تھا۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے تو نقل مکانی بھی کی تھی۔

تاریخی بابری مسجد کی شہادت کو جمعرات کو 26 برس مکمل ہوجائیں گے۔ مسجد کی شہادت چھ دسمبر 1992 کو ہوئی تھی جب انتہاپسند ہندوؤں کے ٹولے نے تمام قانونی، سماجی و اخلاقی اقدار پامال کرتے ہوئے تاریخی بابری مسجد شہید کردی گئی تھی۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق بابری مسجد کے انہدام کو 26 برس مکمل ہونے پرمسلمان تنظیموں نے ’ یوم سیاہ‘ اور انتہا پسند ہندو جماعتوں نے ’سوریہ دیوس‘ منانے کا اعلان کر رکھا ہے۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق ایودھیا میں پائے جانے والے سخت تناؤ کے باعث ضلعی انتظامیہ نے جگہ جگہ چیکنگ کے لیے پولیس کے ناکے لگائے ہوئے ہیں اور کوشش کی جارہی ہے کہ کشیدہ صورتحال سے سماج دشمن عناصر فائدہ نہ اٹھا سکیں۔

ایک بھارتی خبررساں ایجنسی نے پولیس سپرٹنڈنٹ انل کمار سسودیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ چھ دسمبر 1992 کو بابری مسجد کی شہادت (انہدام) ہوئی تھی جس کی وجہ سے مختلف تنظیموں نے اپنے اپنے طور پر پروگراموں کے انعقاد کا اعلان کررکھا ہے۔

ایس پی پولیس نے خبررساں ایجنسی کو بتایا کہ سرکار نے ایودھیا میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے ہیں۔

انل کمار سسودیا نے بتایا کہ سیکیورٹی کے لیے مقامی پولس کے علاوہ 12 ایڈیشنل پولیس سپرٹنڈنٹ، 40 سب انسپکٹرز، 50  ایس ایچ اوزاور 100 کانسٹیبلز سمیت دس کمپنی پی اے سی اور آر اے ایف کو تعینات کیا گیا ہے۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق جس جگہ بابری مسجد واقع تھی وہاں پولیس کو بہت زیادہ مستعد اور چوکس رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے سب سے پرانے مدعی ہاشم انصاری کے صاحبزادے اقبال انصاری کو ایک مرتبہ پھردھمکی آمیز خط ملا ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ مسجد مندر کیس واپس لے لیں۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق سمستی پوربہارسے للن یادو نامی نے بھیجے گئے خط میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ ’’ اگر کیس واپس نہیں لیا گیا تو مرنے کے لیے تیار رہنا، کوئی بچائے گا نہیں‘‘۔

بھارت کے ’نیشنل ہیرالڈ‘ گروپ آف نیوز پیپر کے مطابق شرپسند عناصر کی پوری کوشش ہے کہ بابری مسجد رام جنم بھومی تنازعہ کو ہوا دی جائے تاکہ وہ نفرت بھرا ماحول پیدا کرسکیں۔

نیشنل ہیرالڈ کے اردو اخبار’قومی آواز‘ کے مطابق ہاشم انصاری کے بیٹے اقبال انصاری کو بھیجے جانے والے دھمکی آمیز خط کا مقصد یہی ہے۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق اقبال انصاری کا کہنا ہے کہ وہ ایسے خطوط کو سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں پہلے بھی ایسے خطوط مل چکے ہیں اور وہ اپنی سیکیورٹی کے حوالے سے مطمئن ہیں۔

بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے سب سے پرانے مدعی ہاشم انصاری کے بیٹے اقبال انصاری نے گزشتہ سال بھی ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں کہا تھا کہ’’ میں رام مخالف نہیں ہوں اور نہ ہی میرے والد تھے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ایودھیا میں ایک نہیں ہزاروں رام مندر بنیں مجھے کوئی شکایت نہیں ہے، میرا تو بس یہی کہنا ہے کہ بابری مسجد ہماری ہے اور اسی حق کی لڑائی لڑتے ہوئے ہمارے والد اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ان کے بعد میں لڑرہا ہوں‘‘۔

اقبال انصاری کا کہنا تھا کہ ’’میرے والد اور مہنت گیان داس کی دوستی مثالی تھی اور لڑائی صرف حق کی ہے کہ جس جگہ رام لیلا ہے وہاں مسجد تھی جس کے ثبوت ہمارے پاس موجود ہیں اور وہی لڑائی ہم لڑرہے ہیں‘‘۔

ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں عدالت سے باہر باہم رضامندی سے تصفیہ کے متعلق اقبال انصاری کا کہنا تھا کہ ’’اب یہ ممکن نہیں ہے‘‘۔ انہوں نے واضح کیا تھا کہ’’ اب وہ مسجد مندر کے نام پر ایودھیا میں فساد نہیں چاہتے ہیں اوراس ضمن میں عدالت کا جو بھی فیصلہ ہوگا اسے تسلیم کیا جائے گا‘‘۔


متعلقہ خبریں