کراچی میں تجاوزات کے خلاف آپریشن نہیں روک سکتے، چیف جسٹس

فوٹو: فائل


کراچی: سپریم کورٹ نے وفاق اور صوبائی حکومت کو میئر کراچی کے ساتھ بیٹھ کر فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہے کہ کراچی میں آپریشن سے متاثرین کو اگر متبادل جگہ دینی ہے تو وہ سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں شہر میں تجاوزات اور 35 ہزار رفاعی پلاٹوں پر قبضے کے معاملے پر سندھ حکومت کی نظر ثانی درخواست سمیت دیگر درخواستوں کی سماعت ہوئی۔

سندھ حکومت کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین پیش ہوئے جب کہ میئر کراچی وسیم اختر کی عدم موجودگی پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وسیم اختر کو فوری طلب کر لیا۔

ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے نظر ثانی کی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے ایمپریس مارکیٹ کے اطراف تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیا تھا تاہم پورے شہر میں تجاوزات کے خلاف کارروائی پر تحفظات ہیں۔

انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ آپریشن کو بہتر انداز میں کیا جاسکتا ہے، جس دکاندار کی دکان گئی اس کا تو روزگار ہی چلا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ایمپریس مارکیٹ کے اطراف کا علاقہ خالی کرا لیا گیا ہے ؟ ہمارا پہلا حکم یہ تھا کہ ایمپریس مارکیٹ کے تجاوزات کا خاتمہ کریں اور اب سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا فریضہ پورا کرے اور متاثرین کو اگر متبادل جگہ دینی ہے تو سندھ حکومت دے، ہم نے کب منع کیا ہے۔

جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ ہم نے ایمپریس مارکیٹ کو ماڈل کے طور پر صاف کرنے کا کہا تھا اور اب تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ نے صورتحال خراب کر دی ہے۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ سڑک اور فٹ پاتھ پر تجاوزات کا خاتمہ ہو۔

چیف جسٹس نے کہا کہ غیر قانونی قبضہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ریاست کو قبضہ کرنے والوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے ہیں۔

میئر کراچی نے چیف جسٹس سے استدعا کی کہ فی الحال غیر قانونی گھروں کے خلاف کارروائی روک دیں۔

چیف جسٹس نے میئر کراچی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ فیصلہ کریں جو کرنا ہے اور قانون کے مطابق کام کریں۔ آپ کو ایک ایک پارک کی زمین خالی کرانا ہو گی۔

وسیم اختر نے مؤقف اختیار کیا کہ پارک ابن قاسم کی زمین پر قبضے ہیں اور مجھے پارک ابن قاسم کی طرف کارروائی سے روکا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے میئر کراچی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو ہم مکمل سپورٹ کریں گے۔ سندھ حکومت، وفاقی حکومت اور میئر کراچی مل کر حکمت عملی بنائیں۔ جو بھی کریں لیکن قبضے ختم کرائیں۔

چیف جسٹس نے میئر کراچی سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں تجاوزات کے خلاف آپریشن میں کیا رکاوٹیں ہیں ؟ کیا سندھ حکومت کو نالوں پر قبضے خالی کرانے پر اعتراض ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت سے استدعا کی کہ آپ میئر کراچی کو چار ہفتوں کے لیے آپریشن سے روکیں وہ بہت تیزی سے تجاوزات گرا رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم کیوں روکیں، آپ لوگ مل کر بیٹھیں۔ سندھ حکومت کہنا چاہ رہی ہے کہ قبضے ہو گئے ہیں اب انہیں قانونی تحفظ دے دیں۔

سلمان طالب الدین نے مؤقف اختیار کیا کہ تجاوزات کے دوران گھر توڑے جا رہے ہیں اور میئر کراچی کے پاس بحالی کا کوئی پلان نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میئر کراچی نے پورا پلان بنا رکھا ہے جب کہ بحالی کا منصوبہ بنانا تو سندھ حکومت کا کام ہے۔ ہم تجاوزات کے خلاف آپریشن بند نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ اب اگر ہم نے روک دیا تو پھر یہ کبھی نہیں ہو پائے گا۔

چیف جسٹس نے وفاقی اور سندھ حکومت کو میئر کراچی کے ساتھ بیٹھ کر معاملات ٹھیک کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ رات کو بیٹھ کر آپس میں فیصلہ کر لیں کہ کیا اور کس طرح کرنا ہے ہم رات کو بھی یہیں پر ہیں۔

چیف جسٹس نے مقدمہ کی سماعت بدھ کی صبح ساڑھے آٹھ بجے تک ملتوی کر دی۔


متعلقہ خبریں