سپریم کورٹ کا نجی اسکولوں کو 20 فیصد فیسیں کم کرنے کا حکم

20 مارچ سے پنجاب میں اسکولوں کی داخلہ مہم کا آغاز | ہم نیوز

فوٹو: فائل


اسلام آباد: چیف جسٹس نے نجی اسکولوں کے فیس کے معاملے پر چیئرمین ایف بی آر کو طلب کر لیا ہے جب کہ نجی اسکولوں کو فیسوں میں 20 فیصد کمی کا حکم جاری کر دیا ہے۔

سپریم کورٹ پاکستان میں نجی تعلیمی اداروں کی فیس سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آڈیٹر جنرل کی اسکولوں کے معاملے پر رپورٹ قابل ستائش ہے۔

آڈیٹ حکام نے مؤقف اختیار کیا کہ نجی اسکولوں میں ڈی سی او کی تعداد مختلف ہے جب کہ نجی اسکول نے پانچ لوگوں کو 512 ملین تنخواہوں کی مد میں ادا کیے گئے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ان لوگوں نے یورینیم کی کان لگا رکھی ہے ؟ اتنی بڑی تنخواہ سی ای او اور ڈائریکٹرز لے رہے ہیں پھر کہتے ہیں کہ اسکول خسارے میں جا رہے ہیں۔

آڈیٹ حکام نے بتایا کہ لاہور گرامر اسکول نے ایک اعشاریہ چھ ارب روپے پانچ سال میں ڈائریکٹر کو ادا کیے ہیں جب کہ گرامر اسکول کے ایک ڈائریکٹر کو 83 لاکھ روپے تنخواہ دی جاتی ہے۔

لاہور گرامر اسکول کے اکاؤنٹنٹ نے مؤقف اختیار کیا کہ ہم 24 لاکھ روپے ماہانہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے چیئرمین ایف بی آر کو طلب کرتے ہوئے کہا کہ نجی اسکول والوں کو ذرا خوف نہیں ہے۔ نجی اسکولوں کے سارے اکاؤنٹس کھلوائیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت ہائی کورٹس کے فیصلوں کی پابند نہیں ہے۔ ہمیں آگاہ کیا جائے کہ فیس میں خاطر خواہ کمی کیسے ہو گی ورنہ عدالت خود فیصلہ کرے گی کہ فیس میں مناسب کمی کتنی ہو گی۔

بیکن ہاؤس کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ہر اسکول کی فیس اور سالانہ اضافہ مختلف ہے جب کہ پنجاب کے وزیر تعلیم نے سالانہ دس فیصد اضافے کا قانون بنانے کا کہا تھا لیکن رانا مشہود اسمبلی سے صرف آٹھ فیصد کی منظوری لے سکے۔

جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے سابق وزیر تعلیم کا اپنا بھی کوئی اسکول ہو گا یہاں بنیادی جسٹس کے حوالے سے کوئی قانون نہیں ہے۔ اب عدالت کو بنیادی فیس کے حوالے سے قانون بنانا پڑے گا جب کہ ہزاروں اسکولوں کی انسپیکشن کر کے فیس کا تعین کرنا مشکل ہو گا۔

نجی اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کے والدین کے وکیل فیصل صدیقی  نے مؤقف اختیار کیا کہ فیسوں میں 20 فیصد تک کی کمی کا اسکولوں پر فرق نہیں پڑے گا جب کہ ہر سال دس سے 20 فیصد اضافہ کرنے والے ایک بار بھی 20 فیصد کمی پر تیار نہیں ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مالکان ایک اسکول سے 250 اسکولوں کے مالک بن گئے ہیں اور سرکاری اسکول اس قابل نہیں کہ والدین اپنے بچوں کو وہاں بھجوا سکیں۔

چیف جسٹس نے واضح کیا کہ نجی اسکولوں کو غیر ضروری منافع نہیں کمانے دیں گے جب کہ نجی اسکول مافیا سرکاری اسکولوں پر غالب آ گیا ہے اور ویسے بھی 20 فیصد فیس کم کرنے سے اسکول بند نہیں ہوں گے۔

چیف جسٹس نے حکم دیا کہ گرمیوں کی چھٹیوں کی فیس تعلیمی اداروں کو واپس کرنا ہو گی جب کہ فیس میں پانچ فیصد سالانہ اضافے کی اجازت ہے۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ تعلیمی اداروں کا اوپن آڈٹ کروائیں گے۔ اسکولوں کا تمام ریکارڈ منجمد کروا دیتے ہیں اور جس نے اسکول بند کرنے کی کوشش کی تو اس کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی کی جائے گی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وہ 26 دسمبر کو بیرون ملک سے واپس آکر اس کیس کو سنیں گے جب کہتعلیمی ادارے ملازم کی 85 لاکھ تنخواہ خسارہ ظاہر کرنے کے لیے بتاتے ہیں۔


متعلقہ خبریں