نمک کا کم استعمال اچھی صحت کا ضامن


نمک کے بنا کھانوں کو بے ذائقہ ہی تصور کیا جاتا ہے کیونکہ نمک کھانوں کا وہ جز ہے جس کے بغیر ذائقے کا تصورمحال ہے لیکن ایک تحقیق نے نمک کے زائد استعمال کو صحت کے لیے انتہائی نقصاندہ قرار دیا ہے۔

سنسیناٹی چلڈرنز ہاسپٹل میڈیکل سینٹر کی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ زیادہ نمک کا استعمال خون کی شریانوں کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتا ہے اور اسی وجہ سے درمیانی عمر میں دل کے دورے اور فالج جیسے امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ غذا میں نمک کی زیادتی خون کی شریانوں میں نمایاں تبدیلی لاتی ہے اور وہ سکڑ جاتی ہں یا سخت ہوجاتی ہیں اور یہ ہی خون کی شریانوں سے جڑے امراض کی ابتدائی علامات بھی ہیں۔

طبی ماہرین کے مطابق نمک کھانے کا ایک اہم  عنصر ہے جسے مکمل  طور پر ترک تو نہیں کیا جاسکتا لیکن اس کے استعمال کو کم کیا جانا مکمن ہے۔ نمک اس لیے ضروری ہے کیونکہ ہمارے خلیات سوڈیم کے ذریعے غذائی اجزا کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں، اس کے ساتھ یہ جسم کے مسلز اور اعصابی نظام کو قابو رکھنے کے لیے بھی ضروری ہے۔

نمک کو سائنسی زبان میں سوڈیم کلورائیڈ بھی کہا جاتا ہے اور ہمارے جسم کو صحت مند رکھنے کے لیے سوڈیم اور پانی کے ایک مخصوص توازن کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر یہ توازن برقرار نہ رہے تو انسانی جسم پر اس کے مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

نیشنل انسٹیٹیوٹ فارہیلتھ اینڈ ویلفیر کی ایک تحقیق کے مطابق روزانہ 13 اعشاریہ سات گرام یا اس سے زائد نمک کا استعمال ہارٹ فیل ہونے کا خطرہ دیگر افراد کے مقابلے میں دو گنا بڑھا دیتا ہے۔ نمک کے زائد استعمال کے نتیجے میں بلڈ پریشر، فالج، امراض قلب، گردوں کے امراض، پتھری، موٹاپے، ہڈیوں کی کمزوری، معدے کے کینسر اور پیٹ کے پھولنے جیسے امراض کا خدشہ ہوتا ہے۔

ایک نئی طبی تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ دن بھر میں دو چائے کے چمچے نمک کا استعمال دل کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔

امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق بیشتر افراد اپنے کھانوں کو ذائقہ دار بنانے کے لیے زیادہ نمک پسند کرتے ہیں لیکن  دن بھر میں 3.73 گرام نمک کھانے سے امراض قلب کے مسائل کا خطرہ بڑھ جاتا ہے یا اس سے دل کا حجم بڑھنے کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔ تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نمک کا زائد استعمال  دل کے پٹھوں پر دباﺅ بڑھاتا ہے، جس سے دھڑکن کی رفتار تیز ہوجاتی ہے جبکہ بلڈ پریشر پر مرتب ہونے والے اثرات ہارٹ اٹیک، فالج اور گردوں کے امراض کا سبب بن سکتے ہیں۔

اس تحقیق کے دوران لگ بھگ تین ہزار افراد میں نمک کے استعمال سے دل کی صحت پرمرتب ہونے والے اثرات کا تجزیہ کیا گیا جبکہ تحقیق میں شامل افراد کے دل کی ساخت کا تعین کرنےکے لیے کیے گئے الٹراساؤنڈ سے معلوم ہوا کہ  دن بھر میں 3.73 گرام نمک کا استعمال دل کے لیے تباہ کن ثابت ہوتا ہے اوراس سے بلڈ پریشرمیں اضافہ ہوتا ہے۔

انسٹیٹوٹ آف وائیل کارنیل میڈیسین کی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ زیادہ نمک کھانے سے  دماغی تنزلی کا باعث بننے والے مرض ڈیمینشیا کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ نمک کا زیادہ استعمال جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ے جس کے بارے میں ایک تحقیق کے دوران چوہوں پر کیے۔

تجربات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ زیادہ نمک والی غذائیں دماغ کے مختلف حصوں میں جانے والے خون کی فراہمی 25 سے 28 فیصد تک کم کردیتی ہیں۔ اس سے دماغ کے وہ حصے زیادہ متاثر ہوتے ہیں جو سیکھنے اور یادداشت سے متعلق ہوتے ہیں اور دوران خون کی کمی کی وجہ زیادہ نمک کھانے سے نائٹرک آکسائیڈ بننے کی مقدار میں کمی آنا ہوتا ہے۔

باہر کے کھانوں مثلاً چپس، گریوں، فرنچ فرائز اور دیگر جنک فوڈز میں نمک کی محفوظ قرار دی گئی مقدار سے زیادہ مقدار شامل ہوتی ہے۔ایک اورتحقیق کے مطابق نمک کا زیادہ استعمال ذیابیطس کی علامات کو بڑھا کر اس جان لیوا مرض کا شکار بنا سکتا ہے۔ یہ بلڈ پریشر کو بڑھا کر فالج اور دل کے عارضوں جیسے امراض کے خطرات کو بھی بڑھاتا ہے۔ نمک کے زیادہ استعمال سے گردوں کو نقصان ہوتا ہے اور کیلشیم کے اکٹھا ہونے کی وجہ سے گردوں میں پتھری ہو جاتی ہے ۔

برطانیہ کے ادارے این ایچ ایس کے مطابق بالغ افراد کو دن بھر میں زیادہ سے زیادہ 6 گرام یا ایک چائے کا چمچہ کے برابر نمک استعمال کرنا چاہئے جبکہ تین سال سے کم عمر بچوں کو دو گرام استعمال کرنا چاہئے ۔

عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال نمک کے استعمال میں زیادتی کے باعث تقریباََ 25 لاکھ افراد کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں بالغ افراد کی 99 فیصد آبادی روزمرہ زندگی میں عالمی ادارہ صحت کی جانب سے مقرر کردہ نمک کی مقدار سے دوگنا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق سویا ساس اور ڈبوں میں بند خوراک میں نمک کی بہت زیادہ مقدار شامل کی جاتی ہے۔

سنسینائی چلڈرنز میڈیکل سینٹر کی ایک تحقیق کے مطابق نوجوانوں میں بہت زیادہ نمک کا استعمال خون کی شریانوں کو نقصان پہچاتا ہے جس کے نتیجے میں درمیانی عمر کے پہنچنے تک دل کے دورے اور فالج جیسے امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ایک اور تحقیق کے مطابق نمک کا زیادہ استعمال معدے اور آنتوں میں پائے جانے وا لے انسان دوست جرثموں کو شدید نقصان پہنچاتا ہے اور پھر ان کے متاثر ہونے سے ہائی بلڈ پریشر کا مرض لاحق ہو جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ دیگر مختلف امراض اور بیماریوں بھی پیدا ہو تی ہیں جو انسان کے فطری دفاعی نظام کو متاثر کرتی ہیں ۔ نمک سے بھرپور غذائیں استعمال کرنے سے ازخود امنیتاتی امراض جیسے ملٹی پل اسکیروسس کی بیماری بھی ہو سکتی ہے۔

نمک کے زیادہ استعمال سے انسان کے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی پر رسولی کی شکل میں مرتب ہوتے ہیں جو اعصابی کمزوری کا باعث بن سکتے ہیں۔ امریکی جریدے نیچر کی ایک رپورٹ کے مطابق غذا میں زیادہ نمک استعمال ہمارے جسم میں ان خلیوں میں اضافہ کر سکتا ہے جن کی وجہ سے جسم اپنی ہی قوت مدافعت کے خلاف کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔

نمک کے زیادہ استعمال کے نتیجے میں گردوں کو اس کے اخراج کے لیے بہت زیادہ کام کرنا پڑ تا ہے جس کے نتیجے میں گردوں کے امراض کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے اور پیشاب کی رنگت تبدیل ہو سکتی ہے ۔ اسی طرح بہت زیادہ سوڈیم کی جسم میں موجودگی سے جسم سیال کی سطح سے محروم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے ڈی ہائیڈریشن کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے ۔ جسم میں پانی کی کمی کی وجہ سے پیشاب کی مقدار کم ہو جاتی ہے اور جس کے نتیجے میں پیشاب گاڑھا اور گہرے زرد رنگ کا ہوسکتا ہے ۔بہت زیادہ نمک کے استعمال کی وجہ سے گردے اسے مکمل طور پر خارج نہیں کر پاتے ہیں جس سے کیلشیم کی سطح میں نمایاں کمی ہو جاتی ہے اور کیلشیم کی کمی ہڈیوں کی کمزوری کا باعث بنتی ہے۔ دانتوں کے مسائل اور ہڈیوں کے بھربھرے پن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

تحقیق کے مطابق غذا میں بہت زیادہ نمک کا استعمال خون کی شریانوں میں نمایاں تبدیلی لاتا ہے اور وہ سکڑ جاتی ہیں یا سخت ہو جاتی ہیں جو کہ خون کی شریانوں سے جڑے امراض کی ابتدا ہوتے ہیں۔ نمک کے زیادہ استعمال سے اجتناب برتتے ہوئے ہمیں ایسے کھانے تیار کرنے چاہئے جن میں نمک کم ہو۔ ڈبے میں بند غذاﺅں سے گریز کرنا چاہیے اور سادہ غذا اور پھل زیادہ کھانے چاہیئے ۔


متعلقہ خبریں