پی آئی اے، 46 ملازمین کی ڈگریاں جعلی ہونے کا انکشاف


کراچی: پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کے 46 ملازمین کی ڈگریاں جعلی ہونے کے انکشاف پر تین پائلٹس اور 43 کیبن کریو کے عملے کو معطل کردیا گیا ہے۔

ہم نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کی ہدایت پر سول ایوی ایشن اتھارٹی نے جعلی ڈگری کے حامل ملازمین کی تصدیقی رپورٹ متعلقہ افسران کو ارسال کردی گئی ہے۔ رپورٹ ’ہم نیوز‘ نے حاصل کرلی ہے۔

بھیجی گئی رپورٹ کے مطابق 498 پائلٹس میں سے 449 نے ڈگریاں جمع کرائی ہیں جبکہ 37 پائلٹس نے ابھی تک اپنی ڈگریاں متعلقہ حکام کو جمع نہیں کرائی۔

رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ 1864 کیبن کریو میں سے بھی 146 نے ڈگریاں جمع نہیں کرائی ہیں۔

ہم نیوز کے مطابق کاک پٹ ملازمین میں سے 1184 کی ڈگریاں متعلقہ تعلیمی بورڈز کو بھجوائی گئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق مزید سینکڑوں ڈگریوں کی تصدیق کا عمل جاری ہے جبکہ اس بات کے امکانات بھی موجود ہیں کہ مزید ڈگریاں جعلی ثابت ہوسکتی ہیں۔

ہم نیوز کو ذمہ دار ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ جو ڈگریاں تصدیق کےلیے ابھی تک جمع نہیں کرائی گئی ہیں ان کے متعلق شکوک و شبہات موجود ہیں کہ وہ بھی مشکوک ہو سکتی ہیں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے دسمبر 2018 کے پہلے ہفتے میں پی آئی اے پائلٹس اور عملے کی جعلی ڈگری کیس میں پی آئی اے ،سول ایوی ایشن اور متعلقہ اداروں کے سربراہان کو ذاتی حیثیت میں طلب کر تے ہوئے سماعت 24 دسمبر تک کے لیے ملتوی کر دی تھی۔

سپریم کورٹ میں دوران سماعت اسٹنٹ اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو بتایا تھا کہ پی آئی اے پائلٹس اور عملے کی 73 ڈگریاں جعلی ہیں۔

عدالت عظمیٰ کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان نے استفسار کیا تھا کہ کیا کارروائی کی گئی؟ اور کیا کسی کو معطل کیا گیا ہے؟

نمائندہ سول ایوی ایشن نے اس موقع پر عدالت کے گوش گزار کیا تھا کہ دومہینے کا وقت دے دیں، انکوائری کرکے رپورٹ پیش کریں گے۔ ان کا مؤقف تھا کہ پائلٹس کو گراؤنڈ کر دیا گیا ہے۔

بینچ کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان نے اس پر کہا تھا کہ گھنٹوں کی بات کریں آپ مہینے مانگ رہے ہیں۔ ان کا استفسار تھا کہ باقی ایئر لائنز کی کیا پوزیشن ہے؟

نمائندہ سول ایوی ایشن نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا تھا کہ شاہین ایئرلائن کے 172 پائلٹس اورکیبن عملہ 538 افراد پر مشتمل ہے۔ اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کا مؤقف تھا کہ 442 ڈگریاں موصول ہوئی ہیں۔

بینچ کے رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے اس موقع پر ریمارکس دیے تھے کہ تعلیمی بورڈوں اوریونیورسٹیوں کو ایک ہفتے میں تصدیق کا کہا تھا لیکن ایک سال ہوگیا ہے اور ابھی تک کچھ نہیں ہوا ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ معاملے پر غیر ضروری التوا مانگ کر تاخیرکا شکار کیا گیا، پی آئی اے اور متعلقہ اداروں نے اب تک کوئی اقدامات نہیں کیے ہیں۔

عدالت عظمیٰ کے سربراہ نے استفسار کیا کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ڈی جی اور سی ای اوکہاں ہیں؟ انھوں نے پی آئی اے، سول ایوی ایشن اور دیگر متعلقہ اداروں کے سربراہان کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے سماعت 24 دسمبرتک ملتوی کر دی تھی۔


متعلقہ خبریں