خودکشی کی بڑی وجہ ذہنی دباؤ


اسلام آباد: پاکستان میں  ٹین ایجرز اور جوان افراد میں خودکشی کا رجحان بڑھتا جارہا ہے اور اس کی بنیادی وجہ ڈپریشن یعنی ذہنی دباؤ بتائی جاتی ہے۔ اس کے بارے میں پاکستانی عوام کی اکثریت لاعلم ہے لیکن خود کشی میں تیزی سے ہونے والا اضافہ اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ یہاں ذہنی امراض میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔

خودکشی ڈپریشن کا آخری مرحلہ ہے۔ یہ ایسی بیماری ہے جو آہستہ آہستہ انسان کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیتی ہے۔ ہمارے سامنے بہت سے ایسے واقعات ہو چکے ہیں جن میں خودکشی کرنے والے کی جانب سے کوئی اشارہ نہیں دیا گیا۔ ڈیپریشن کے مرض میں عمومآ ایسا ہی ہوتا ہے۔

دنیا بھر میں ہر 40 سیکنڈ میں ایک خودکشی کی جاتی ہے

ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر 40 سیکنڈ میں ایک خودکشی کی جاتی ہے جبکہ ہر برس کم و بیش 80 ہزار افراد اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی زندگی ختم کر دیتے ہیں جبکہ ہزاروں اس کی کوشش کرتے ہیں لیکن بچ جاتے ہیں۔

اگست 2018 میں عالمی ادارہ صحت کے خودکشی پر شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ خودکشی عوامی صحت کی ترجیحات میں شامل ہوچکی ہے۔

اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پوری دنیا میں خودکشی کے 79 فیصد واقعات غریب اور کم آمدنی والے ممالک میں ہوتے ہیں جبکہ عالمی ادارہ صحت نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ خود کشی 15 سے 29 سال کے افراد میں موت کی دوسری بڑی وجہ ہے۔

پاکستان میں دیگر کم آمادنی والے ممالک کے مقابلے میں خودکشی کا رجحان اتنا زیادہ نہیں لیکن اب اس میں اضافہ ہوتا جارہاہ ہے۔عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار برائے سال 2014 کے مطابق  پاکستان میں ہر برس ایک اندازے کے مطابق 13،377 افراد خودکشی کرتے ہیں۔

2012 سے اب تک نوجوانوں میں کی جانب سے کی گئی خودکشیوں کی جو وجوہ سامنے آئیں ان میں روزمرہ پریشانیاں شامل ہیں اور ان میں اچانک اضافہ دیکھا گیا ہے جبکہ رپورٹس کے مطابق نوجوانوں میں خودکشی کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

اسٹوڈنٹس خصوصاً لڑکیوں میں خودکشی کے خیالات زیادہ پائے جاتے ہیں،تحقیق 

حال ہی میں یوتھ وائس جنرل میں ‘خودکشی کے راستے پر، کراچی میں  نوجوانوں میں خودکشی  کا رجحان’ کے  عنوان سے شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کراچی میں طلبا  خاص طور پر لڑکیوں میں خودکشی کے خیالات زیادہ پائے جاتے ہیں۔

اسی طرح کراچی کے آغا خان یونیورسٹی کی جانب سے اپر میڈل کلاس کے علاقے میں قائم گریڈ 9th سے گریڈ 13th تک کے کو ایجوکیشن ہائی اسکول میں  ایک سروے کی گیا جس میں 123 طالبعلموں سے سوال نامہ پر کرایا گیا۔

سروے کے نتائج کے مطابق ریسرچ میں شامل افراد میں سے 58 اعشاریہ 54 کے ذہن میں خودکشی کے خیالات آتے ہیں جبکہ 84 اعشاریہ پانچ افراد نے خودکشی سے مماثلت رکھنے والے سرگرمیاں بھی کرچکے ہیں تاہم اس سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ خود کشی کے غیرفعال نظریات کے مقابلے میں خودکشی کے عملی خیالات کی شرع کم ہے۔

خود کشی کے فعال نظریات:

یہ وہ نظریات ہوتے ہیں جس میں انسان مکمل منصوبہ بندی سے خود کو ختم کرتا ہے اور اسے خودکشی کے بارے میں مسلسل خیالات آتے رہتے ہیں اور وہ خود اپنی زندگی کے خاتمے کی تیاری کرتاہے۔ اس کی ایک مثال کچھ عرصے قبل بیکن ہاؤس نیشنل یونی ورسٹی کی چھت سے کود کر اپنی جان دینے والی روشان فرخ ہیں۔ جن کی سوشل میڈیا پوسٹس سے اس بات کے اشارے مل رہے تھے کہ وہ کسی قسم کے ڈپریشن میں مبتلا ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی پوسٹ میں خود کو ختم کرنے اور موت کے حوالے سے بات کی تھی لیکن باظاہر وہ بالکل نارمل تھیں۔

خود کشی کے غیر فعال نظریات:

یہ وہ نظریات ہوتے ہیں جس میں انسان اچانک ہی خود کو نقصان پہنچا دیتا ہے یا اپنی جان دے دیتا ہے اور اس کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کرتا اور باظاہر کسی کو محسوس بھی نہیں ہوتا یہ شخص اپنے ساتھ ایسا کچھ کرسکتا ہے۔

خودکشی، سماجی اور نفسیاتی مسائل پر بھی گفتگو کرنے کی ضرورت ہے، ڈاکٹر عمبرین

کراچی کے اسپتال ایس آئی یو ٹی میں ‘نوجوان نسل میں خودکشی: نفسیاتی اور سماجی عناصر’کے عنوان سے ایک سیشن منعقد کیا گیا جس میں ماہر نفسیات ڈاکٹر عظمیٰ عمبرین نے اس بات پر زور دیا گیا کہ اس بارے میں صرف ماحول کے بارے میں ہی نہیں بلکہ سماجی اور نفسیاتی مسائل پر بھی گفتگو کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بہت سے کیس ایسے ہوتے ہیں جس میں نفسیاتی مسائل کی نشاندہی نہیں ہو پاتی اور یہ ہی مسائل انسان کو خودکشی کی جانب سے لے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر عمبرین کا کہنا تھا کہ والدین کی جانب سے کبھی کبھی بچوں سے غیر حقیقی توقعات لگا لی جاتی ہیں اور بچوں کا موازنہ ان کے ہم عمروں کے ساتھ کیا جاتا ہے جس کے باعث وہ ڈپریشن اور ناامیدی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

انہو ں نے یہ بھی بتایا کہ ناامیدی خودکشی کی جانب لے جانے والے نفیساتی مسائل میں سے ایک ہے جس میں انسان کو کچھ نظر نہیں آتا اور خود کو ایک بیکارشے سمجھنے لگتا ہے۔

دلبرداشتہ ہوکر خود کشی کی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں:

سابق پاکستانی کرکٹرعامرحنیف کے بیٹے نے انڈر 19th کرکٹ ٹیم میں منتخب نہ ہونے پر خودکشی کرلی تھی۔

اسی طرح رواں برس ستمبر میں 26 سالہ ماڈل انعم تانولی نے خودکشی کرکے پورے میڈیا کو سکتے کی کیفیت میں مبتلا کردیا تھا لیکن ان کے اس اقدام کی وجہ بدترین ڈپریشن تھا۔ اسی طرھ کی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں جس میں رواں برس وادی چترال قابل ذکر ہے جہاں زبردستی شادیوں پر لڑکیوں نے خود کشی کرنے شروع کردی تھی۔

خودکشی کے سدباب کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟

پاکستان میں خود کشی کے واقعات میں کمی کی ایک وجہ مذہب ہے لیکن اب یہاں بھی خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

خودکشی کے سدباب کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے تو اس نظریئے کے خاتمے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی شکست خوردہ یا فاتح نہیں ہوتا بلکہ ہر کسی میں اپنی اہلیت کے مطابق صلاحیت پائی جاتی ہے اور اگر کسی کو پارا ثابت کرنا ہے توپھر اسے ہر چیز اور کام پر آزمایا جائے۔

اسی طرح تعلیمی اداروں میں اساتذہ کو اس بات ہر نظر رکھنی چاہیئے کہ کس طالبعلم کو کس اسٹیج پر مسائل کا سامنا ہے تاکہ ہر قدم پر طالبعلموں کی رہنمائی اور تربیت کی جاسکے کیونکہ اس وقت طالبعلموں کے لیے سب سے زیادہ فقدان رہنمائی اور درست سمت کے تعین کا ہے۔

ماہرین کے مطابق یونیورسٹی کے مقابلے میں اسکول اور کالج کے طلبا اور طالبات کے لیے ڈپریشن کا سامنا کرنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔

ڈاکٹر عمبرین کا کہنا ہے کہ اس وقت ضرورت ہے ”Psychological autopsy”یعنی نفسیاتی پوسٹ مارٹم کے نظریہ پر عمل کرنے کی۔ جس پرعمل کرکے خودکشی کرنے والے افراد کی پوری نفسیاتی پروفائل بنائی جاسکتی ہے اور اس کے لیے خودکشی کا شکار افراد کے اہل خانہ، دوست احباب اور طبی عملے سے تفصیلی انٹرویو کیا جائے لیکن یہ ایک مشکل عمل ہے کیونکہ خودکشی ایک خاموش چوغے کی طرح ہے۔


متعلقہ خبریں