12 سال بعد حکومت پنجاب کا بسنت کا تہوار بحال کرنے کا فیصلہ


لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدارنے  بسنت کا روایتی تہوار آئندہ سال بھرپور طریقے سے منانے کی اجازت دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ صوبائی حکومت کے فیصلے کے تحت فروری کے دوسرے ہفتے میں بسنت فیسٹول منایا جائے گا جس کے نتیجے میں فضائیں ’ بو کاٹا‘ کے فلک شگاف نعروں سے ایک مرتبہ پھر گونجیں گی اور ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے پڑیں گے۔

پنجاب کے روایتی تہوارکو منانے پر گزشتہ 12 سال سے اعلانیہ پابندی عائد تھی۔ آخری مرتبہ بسنت کا تہوار 2007 میں منایا گیا تھا۔

ہم نیوز کے مطابق بسنت کے تہوار پرعائد پابندی ختم کرنے اور اس کے طور طریقے طے کرنے کے لیے باقاعدہ کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے۔

صوبائی حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ کسی کوبھی کیمیکل زدہ ڈور استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

شاعر مشرق حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کے نواسے اور ثقافتی پروگراموں کے آرگنائزر میاں یوسف صلاح الدین نے اس حوالے سے ’ہم نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ روایتی تہوار’ بسنت‘ منانے پر عائد پابندی کا ہٹنا احسن اور اچھا قدم ہے لیکن اس کے منانے سے جو نقصانات ہوتے ہیں ان کا خیال بھی رکھا جانا چاہیے جو نہایت ضروری ہے۔

میاں یوسف صلاح الدین چیئرمین پاکستان تحریک انصاف اور موجودہ وزیراعظم عمران خان کے انتہائی قریبی دوستوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ عمران خان نے اپنی کتاب ’میں اور میرا پاکستان‘میں بھی ان کا ذکر کیا ہے۔

ہم نیوز سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ ہر قسم کی دھاتی اور نقصان پہنچانے والی ڈورکے استعمال پرمکمل پابندی ہونی چاہیئے اور اس بات کو بھی یقینی بنایا جانا لازمی ہے کہ کیمیکل زدہ ڈور کا استعمال نہ ہو تاکہ کوئی انسانی جان ضائع نہ ہو۔

میاں یوسف صلاح الدین نے میدان سیاست کے خاردار میدان میں بھی قدم رکھا تھا اور اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنے ماموں ڈاکٹر جسٹس (ر) جاوید اقبال کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی کا انتخاب کیا تھا۔

1988 میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں وہ لاہور کی ایک نشست سے پی پی پی کے ٹکٹ پر کامیاب بھی ہوئے تھے۔ 1993 میں میاں یوسف صلاح الدین قومی اسمبلی کی نشست کے لیے جب میدان میں اترے تو ان کے مدمقابل میاں شہباز شریف تھے جن سے وہ الیکشن ہار گئے جس کے بعد وہ رفتہ رفتہ سیاست سے کنارہ کش ہوگئے اورانہوں نے خود کو ثقافتی سرگرمیوں تک محدود کرلیا۔

میاں یوسف صلاح الدین کے قریبی احباب اس حقیقت سے بھی خوب واقف ہیں کہ وہ کھانا بھی نہایت عمدہ اور ذائقے دار پکاتے ہیں۔ ان کا گھر مہمانان کی سرگرمیوں کا مرکز قرار دیا جاتا ہے۔

بسنت کے تہوار پر یوں تو پورے پنجاب کا منظر دیدنی ہوتا ہے لیکن 12 سال قبل تک ان کے گھر کا منظر دیکھنے کے لیے بیرون ملک سے بھی مہمانان کی کثیر تعداد آتی تھی اور رات بھر ’بو کاٹا‘ کی آوازوں سے فضائیں گونجتی رہتی تھیں اور طرح طرح کے پکوانوں کی خوشبوئیں بکھرتی رہتی تھیں۔

بلاشبہ ہر ایک کی خواہش و کوشش ہوتی تھی کہ بسنت کا تہوار منانے کے لیے اسے میاں یوسف صلاح الدین کے گھر جانے کا پروانہ مل جائے۔ ان کے گھر میں سیاسی و سماجی شخصیات کے علاوہ فلم و ٹی وی کے ستاروں کی کہکشاں بھی اترتی تھی جس کی چکا چوند آنکھوں کو خیرہ کرتی تھی۔

بسنت بحالی کمیٹی کے سربراہ صوبائی وزیر قانون ہوں گے جب کہ کمیٹی میں دیگر دس افراد بھی شامل ہوں گے۔

ہم نیوز کے مطابق بسنت کے حوالے سے لاہور کے مخصوص علاقوں میں پتنگ بازی کے مقابلے بھی کرائے جائیں گے۔

پنجاب کے وزیر اطلاعات و نشریات فیاض الحسن چوہان نے بھی لاہور میں منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بسنت منائے جانے کی تصدیق کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے کیے جانے والے فیصلے کی مزید تفصیلات بہت جلد منظر عام پرآجائیں گی۔

ایک سوال کے جواب میں صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے اور بسنت پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

پنجاب کی صوبائی حکومت نے بسنت کا مقبول عام تہوار منانے پر اس وقت پابندی عائد کردی تھی جب پے در پے دھاتی و کیمیکل ڈوروں کے استعمال کے نتیجے میں نوجوانوں اور بچوں کی اموات ہونے لگی تھیں۔

بسنت کا سنسکرت میں لفظی مطلب ’بہار‘ کا ہے۔ اسے بسنت پنچمی اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ ’ماگھ ‘کی پانچ تاریخ کو منایا جاتا ہے جو عموماً فروری کے مہینے میں آتا ہے۔

تاریخی اعتبار سے اس دن خوشی منائی جاتی ہے اس کے اظہار کے لیے  نئے کپڑے پہنے جاتے ہیں، پتنگیں اڑائی جاتی ہیں اور موسیقی سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔ خاص بات یہ ہوتی ہے کہ خواتین اور بچے اس دن زیادہ تر پیلے رنگ کے کپڑے زیب تن کرتے ہیں۔ خواتین پیلے رنگ کی چوڑیا بھی پہنتی ہیں۔

پاکستان کی معروف گلوکارہ فریحہ پرویز نے بسنت کے حوالے سے ایک گانا بھی گایا تھا جو ’دل ہوا بو کاٹا‘ کے نام سے عالمگیر شہرت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔

ماہرین معاشیات کے نزدیک بسنت کے تہوار کی ایک بڑی اہمیت یہ بھی ہے کہ اربوں روپے کی خریداری ہونے کی وجہ سے ملکی معیشت کاپہیہ چل پڑتا ہے اور نتیجتاً غریب و متوسط طبقے کو فائدہ پہنچتا ہے۔

 

 


متعلقہ خبریں