مصمم ارادہ منزل تک لے آیا، محبوب خان


کوکنگ چینلوں کی بدولت جہاں معاشرے میں دیگر بہت سی تبدیلیاں آئیں وہیں ایک سب سے نمایاں تبدیلی ایک قدیم شعبے یعنی کوکنگ ایکسپرٹس کا نئے انداز میں میدان عمل میں قدم رکھنا ہے۔

آج بے شمار نوجوان فخریہ اس شعبے کی جانب آرہے ہیں لیکن ایک وقت تھا کہ اس جانب آنے والوں کو معاشرے کی جانب سے بے حد مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اپنے شوق کی خاطر دنیا کا سامنا کرنے والوں میں ایک نمایاں ترین نام شیف محبوب خان کا ہے جنہوں نے اپنے خوابوں کی تعبیر کے حصول کیلئے خاردار راہوں پر سفر کیا۔

16 سال تک مسائل جھیلنے کے بعد آخرکار انہیں روشنی کی کرن نظر آئی، اسی کرن کو ہاتھ میں تھام کر وہ کامیابی کی روشنی کو خود تک لانے میں کامیاب ہوگئے۔ 6 مارچ 1969ء کو کراچی میں پیدا ہونے والے شیف محبوب خان مندوخیل آج نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونی ممالک میں بھی یکساں مقبولیت کے حامل ہیں۔

گزشتہ دنوں ہم نیوز نے شیف محبوب خان سے دلچسپ گفتگو کا اہتمام کیا، جس میں انہوں نے ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی سے متعلق سوالات کے مزے دار جواب دیے کیوں کہ بظاہر انتہائی سنجیدہ نظر آنے والے محبوب خان انتہائی حاضر جواب اور بذلہ سنج شخصیت کے مالک ہیں۔

بچپن اور گھریلو زندگی

کھانا پکانے کے شوق کے حوالے سے بات کرتے ہوئے محبوب خان نے ہم نیوز کو بتایا کہ مجھے بچپن ہی سے مزیدار کھانے کھانے کا شوق تھا، شاید یہی چیز مجھے کھانا پکانے کی جانب لے آئی، علاوہ ازیں میرے والد بہترین کھانا پکاتے تھے، میری زبان پر والد صاحب کی پکائی ہوئی مچھلی کا ذائقہ بھلائے سے نہیں بھولتا، میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ میری اس جانب آنے کی وجہ والد صاحب کے ہاتھوں کا ذائقہ ہے۔ میں نے نو سال کی عمر میں اپنی خالہ کے گھر پران مصالحہ بنایا تھا۔ شیف بننے کی خواہش پر گھر والوں کی جانب سے تو کوئی خاص ردعمل سامنے نہیں آیا البتہ دوستوں اور رشتے داروں نے ضرور تنقید کی۔ میرا پورا خاندان تعمیراتی صنعت سے وابستہ ہے۔ جب میں نے شیف بننے کا ارادہ ظاہر کیا تو رشتہ داروں نے کہا کہ ہمارے ساتھ کام کرو، نئے پروجیکٹس بناﺅ لیکن میں نے کہا کہ اس شعبے سے علیحدگی اختیار نہیں کروں گا۔ میرے بھائی نے آسٹریلیا سے بی بی اے کیا ہے مجھے سب اس کی مثالیں دیا کرتے تھے کہ وہ کتنی جلدی سیٹل ہوگیا ہے مگر میں نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ ابتدائی 16سال میں مجھے کوئی خاص کامیابی نہیں ملی تاہم میں نے کبھی بھی مایوسی کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا اور محنت کا سلسلہ جاری رکھا۔ ویسے اگر میں شیف نہ بنتا تو بھی تعمیراتی صنعت سے وابستہ نہ ہوتا بلکہ ڈاکٹر ہوتا اور یقیناً سرجن ہوتا ۔

عملی زندگی 

عملی زندگی میں قدم رکھنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ میں نے 1984ءمیں میٹرک کرنے کے بعد تاج محل(موجودہ ریجنٹ پلازہ) ہوٹل کے اخبار میں شائع ہونے والی اپرنٹس شپ کا اشتہار دیکھا تو والد کے سامنے اس موقع سے فائدہ اُٹھانے کی خواہش ظاہر کی اور درخواست دےدی ۔ اس وقت میری عمر 14 سال تھی اس لیے ہوٹل والے معترض ہوئے یوں میری خواہش پوری نہ ہوسکی، بعد ازاں پری میڈیکل میں انٹر کیا،پھر گریجویشن کی ڈگری کے حصول کے بعد فوڈ اینڈ بیوریجز اور ہوٹل مینجمنٹ میں ڈپلومہ کیا۔ اسکے بعد ہوٹل شیرٹن سے دو سال کی اپرنٹس شپ کی۔ پیشہ ورانہ ڈگری کے حصول کے بعد یہ میرا پہلا اور مشکل قدم تھا، بعد ازاںہوٹل مینجمنٹ کے علاوہ اٹالین اور فرنچ لینگویج کے کورسز بھی کئے۔شیرٹن ہوٹل کے بعد میں نے پی سی اور پھر آواری میں خدمات انجام دیں۔میں لاہور بھی گیا ، یہاں میں نے ”اورینٹل پیلس “ کے نام سے ہوٹل قائم کیا اور پھر 5سال بعد واپس کراچی آگیا ۔کچھ عرصہ یہاں قیام کرنے کے بعد جرمنی چلا گیا اور وہاں بھی میں نے ایک پاکستانی ریسٹورنٹ کھولا۔

میڈیا پر آمد

میڈیا پر آنے کے حوالے سے کیے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے ہم نیوز سے کو بتایا کہ 1997ء وہ سال تھا جب میری زندگی نے ایک اہم موڑ لیا اور این ٹی ایم سے ایک کوکنگ شو کرنے کی آفر آئی، یوں میں نے این ٹی ایم پر اپنا پہلا شو کیا اس کے بعد کچھ نجی ٹی وی چینلز پر کچھ سال کام کیا، پھر مصالحہ والوں کی محبت واپس یہاں لے آئی۔

ذاتی زندگی 

اپنی ذاتی زندگی کے حوالے سے بتاتے ہوئے محبوب خان نے بتایا کہ میری شادی 2001ء میں والدین کی پسند سے ہوئی۔ میرے تین بچے، دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔میری اپنی بیگم کے ساتھ مثالی ذہنی ہم آہنگی ہے۔ماشاءاللہ، ہمارے درمیان بڑے مسائل کبھی بھی نہیں ہوئے۔ہم اپنے گھر میں پشتو بولتے ہیں، گھر میں، میں اور بیگم دونوں کھانا پکاتے ہیں ۔ میری بیگم کے ہاتھوں میں بھی بہت ذائقہ ہے، مجھے ہر وہ کھانا پسند ہے جو میری بیوی بطور خاص میرے لیے پکاتی ہے۔ بینگن کا بھرتہ، بھنڈی گوشت اور نمکین روسٹ کے علاوہ سبزیاں پسند ہیں۔ اس کے علاوہ میں سڑکوں پر بھی کھانے کھا لیتا ہوں ۔تازہ اور مزیدار ہونے کی وجہ سے مجھے آئس برگ بھی پسند ہے ۔

پسند و ناپسند

شیف محبوب خان نے اپنی پسند و ناپسند سے متعلق بتاتے ہوئے کہا کہ میں بہت سادہ کھانا پسند کرتا ہوں ، پرانا بچا ہوا بھی کھالیتا ہوں بلکہ باسی کھانا زیادہ شوق سے کھاتا ہوں۔ مجھے مچھلی بہت پسند ہے یہاں تک کہ میں ناشتے، دوپہر اور رات کے کھانے میں بھی مچھلی کھاسکتا ہوں۔ میں گھر سے باہر کھانا کھانے بہت کم جاتا ہوں کیونکہ مجھے گھر اور ہوٹل کے کھانے کے درمیان فرق اچھی طرح سے معلوم ہے۔ اگر جانا بھی پڑے تو بچوں کے ہمراہ جاتا ہوں ۔ میرے دوستوں کو مجھ سے اس بات کی بہت شکایت ہے کہ وہ بلاتے ہیں اور میں نہیں جاتا بلکہ بہت سے دوستوں نے تو مجھے باہر بلانا ہی چھوڑ دیا ہے۔ میں بہت گھریلو ٹائپ کا بندہ ہوں ،صرف گھر سے آفس اور آفس سے گھر جاتا ہوں ۔مجھے موسیقی بہت پسند ہے اور جم بھی جاتا ہوں۔ سائنس ، فکشن اور سچی کہانوں پر مبنی فلمیں بھی ہوں۔ کتابیں شوق سے پڑھتا ہوں ،اس وقت میرے پاس 2500 سے زائد کتب ہیں جن میں سے زیادہ تر کھانا پکانے سے متعلق ہیں۔ مجھے جاپانی کھانے پکانے میں مہارت ہے لیکن مجھے انہیں پکانے کا بہت مشکل سے ہی موقع ملتا ہے کیونکہ یہاں کے لوگوں کو اس طرح کے کھانے پسند نہیں ہیں۔ مجھے شہرت اچھی لگتی ہے لیکن شہرت کو کبھی خود پر حاوی نہیں کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ مجھ میں کوئی خاص بات نہیں ہے، میں بھی پاکستان کے دوسرے شہریوں کی طرح سے عام شہری ہوں۔

خوبی و خامی 

اپنی خوبیوں اور خامیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے محبوب خان نے کہا کہ میری خامی یہ ہے کہ میں بہت منظم نہیں ہوں جبکہ ہونا چاہئے ۔نرم دل ہونا میری اچھی عادت ہے۔انسان کی خوبصورتی اسی میں ہے کہ وہ فطرت سے قریب ہو اور لوگوں کی تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے جس حد تک ممکن ہو لوگوں کی مدد کرے۔

غذائی اہمیت کے حامل کھانے 

شیف محبوب کے نزدیک درست طریقے سے پکایا گیا ہر کھانا صحت کیلئے اچھا ہوتا ہے۔ ہمارے پاکستانی کھانے نہایت صحت بخش ہیں لیکن انہیں انتہائی برے انداز میں پکایا جاتا ہے۔ میرے والد کو 40 سال کی عمر میں دل کا دورہ پڑا اور وہ وقت سے پہلے ہی ہم سے جدا ہوگئے کیونکہ انہوں نے کھانے پینے میں احتیاط نہیں کی۔ ان کے انتقال کے بعد میں نے خوراک کی غذائی افادیت کا نہ صرف مطالعہ کیا بلکہ روز مرہ زندگی میں اسے لاگو بھی کیا۔ عام سا پکا ہوا کھانا بھی اگر اچھے طریقے سے پیش کیا جائے تو اچھا لگتا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ کھانے کو اچھی طرح سے پکانا۔ مثال کے طور پر سبزیوں کو ہمیشہ ہلکی آنچ پر پکائیں۔ اس سے وہ خوش شکل، اور خستہ پکیں گی۔ صحت کیلئے جسمانی سرگرمیاں زیادہ ضروری ہیں۔ ہم ایک صحت مند غذا کھالیں لیکن کیلوریز نہ جلائیں تو بے فیض ہوگا۔

”فوڈ فار لائف“ 

محبوب خان ایک کتاب ”فوڈ فار لائف“ کے مصنف بھی ہیں۔ اپنی کتاب کے حوالے سے بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں ہمیشہ سے صحت کے حوالے سے کچھ لکھنے کا خواہاں تھا۔ ایک کوکنگ آئل کمپنی کے سامنے جب میں نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تو انہیں میرا آئیڈیا بہت پسند آیا یوں یہ کتاب منظر عام پر آئی۔اس کتاب میں بیماریوں اور کھانے کے مختلف اجزاء کی اہمیت کے حوالے سے بہت ساری معلومات رقم طراز ہیں، علاوہ ازیں اس میں صحت بخش اجزاء پر مشتمل کھانوں کی کچھ تراکیب بھی شامل ہیں۔

مستقبل 

مستقبل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کا قیام میری سب سے بڑی خواہش ہے لیکن یہ آسان کام نہیں ہے۔ اس کیلئے بہت زیادہ وقت درکار ہوتا ہے جو میرے پاس ہے نہیں۔ ویسے مجھے اس بات کا بہت افسوس ہے کہ پاکستان میں اچھے کوکنگ انسٹیٹیوٹ نہیں ہیں۔ انڈیا میں صورتحال مختلف ہے وہاں اس شعبے میں بیچلرز اور ماسٹرز لیول تک کے شیفس مل جاتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں معاملہ ڈپلومہ تک ہی محدود ہے۔

قارئین کیلئے پیغام 

انٹرویو کے اختتام پر محبوب خان ہم نیوز کے ذریعے اپنے پڑھنے والوں کو پیغام دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سب کچھ کھائیں کیوں کہ سب کچھ کھائیں گے تو ہی صحت مند رہیں گے۔ کھانوں کو خوب انجوائے کرکے کھائیں بصورت دیگر مخصوص کھانے، کھانے سے صحت اچھی نہیں رہتی ۔


متعلقہ خبریں