نواز شریف کے خلاف کرپشن ریفرنسز میں فیصلہ محفوظ



اسلام آباد: نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنسز میں عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے جو 24 دسمبر کو سنایا جائے گا۔

احتساب عدالت نمبر دو کے جج محمد ارشد ملک کیس کی سماعت کی اور سابق وزیراعظم بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

احتساب عدالت میں دونوں ریفرنسز پر ٹرائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا گیا ہے۔ العزیزیہ میں استغاثہ کے 22 اور فلیگ شپ ریفرنس میں 16 گواہان نے بیانات قلمبند کروائے ہیں۔

سابق وزیراعظم نے دونوں ریفرنسز نے اپنا دفاع پیش نہیں کیا۔ نوازشریف نے مؤقف اپنایا کہ کاروبار میرے بچوں کے ہیں جو بالغ اور خود مختار ہیں میرا ان کاروبار سے کوئی تعلق نہیں۔

نیب نے عدالت کو بتایا کہ کاروبار کے حقیقی مالک نواز شریف ہیں، بچے بے نامی دار ہیں، وائٹ کالر کرائم میں جائیداد اور کاروبار بے نامی دار کے نام پر شروع کیا جاتا ہے۔

استغاثہ کا مؤقف تھا کہ نواز شریف کو بچوں کی کمپنیوں سے بھاری رقوم ٹرانسفر ہوتی رہیں، آمدن سے زائد اثاثہ جات سے متعلق نیب کے سیکشن نائن اے فائیو کے تحت سزا دی جائے۔

نیب کا مؤقف تھا کہ نوازشریف کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز شریک ملزمان ہیں  اور عدالت نے عدم پیشی پر دونوں کو اشتہاری قرار دے رکھا ہے۔

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے فلیگ شپ ریفرنس میں جواب الجواب دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف نے کبھی یہ تسلیم نہیں کیا کہ انہوں نے کیپٹل ایف زیڈ ای سے تنخواہ وصول کی، کیپٹل ایف زیڈ ای میں نوازشریف کا عہدہ اعزازی تھا۔

خواجہ حارث نے واضح کیا کہ سابق وزیر اعظم کی کیپٹل ایف زیڈ ای میں ملازمت صرف ویزہ کے مقاصد کیلئے تھی۔

احتساب عدالت کی جانب سے فلیگ شپ ریفرنس میں 18 اور العزیزیہ میں 22 گواہان کے بیان قلم بند کیے گئے ہیں۔سابق وزیراعظم نے فلیگ شپ میں 140 اور العزیزیہ میں 151 سوالوں کے جواب عدالت میں جمع کرائے ہیں۔

العزیزیہ ریفرنس

سابق وزیراعظم نواز شریف نے العزیزیہ ریفرنس میں اپنا دفاع پیش کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ نوازشریف نے اپنے بیان میں العزیزیہ کی ملکیت اور قطری شہزادے کی خط سے لاتعلقی کا اظہار کردیا تھا۔

العزیزیہ کی ملکیت سے متعلق خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا تھا کہ نوازشریف نے کہا تھا کہ میرا خیال ہے عباس شریف العزیزیہ میں شراکت دار تھے اورمیرا خیال ہے کہ العزیزیہ کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم تین شراکت داروں میں تقسیم ہے۔ وکیل صفائی نے کہا کہ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نوازشریف کو براہ راست اس کا علم نہیں تھا۔

نوازشریف نے استدعا کی تھی کہ جے آئی ٹی کی طرف سے اکٹھے کیے گئے نام نہاد شواہد اور رپورٹ کومسترد کیا جائے۔ وکیل صفائی خواجہ حارث نے اپنے حتمی دلائل میں کہا تھا کہ حسن اور حسین نواز کا کوئی بیان یا دستاویز نواز شریف کیخلاف شواہد کے طور پر استعمال نہیں ہو سکتی۔

فلیگ شپ

قومی احتساب بیورو(نیب) کی جانب سے دائر فلیگ شپ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نے 140 سوالوں کے جواب جمع کرائے تھے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ استغاثہ میرے خلاف ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ استغاثہ حسین نواز اور حسن نواز کو میرے زیر کفالت ثبوت اکٹھا کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوا ہے جب کہ میرا کسی قسم کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔


متعلقہ خبریں