جم میٹس کے بعد امریکی خصوصی ایلچی بریٹ مک بھی مستعفی


واشنگٹن: عالمی اتحاد کے امریکی نمائندہ خصوصی بریٹ مک گرک نے اپنا استعفیٰ پیش کردیا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے حوالے سے عالمی خبررساں ایجنسی نے کہا ہے کہ استعفیٰ 31 دسمبر سے نافذ العمل ہوگا۔ عالمی سیاسی مبصرین کے مطابق بریٹ کے استعفے سے امریکی صدر کی مشکلات میں یقیناً اضافہ ہوگا۔

عالمی خبررساں ایجنسی نے اس ضمن میں دعویٰ کیا ہے کہ بریٹ مک گرک کے مستعفی ہونے کی وجہ شام سے امریکی افواج کے انخلا کا فیصلہ ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام سے امریکی افواج کے انخلا کا فیصلہ سنایا تھا۔

امریکی صدر کے اس فیصلے کے فوری بعد ہی امریکی سیکریٹری دفاع جم میٹس کا بھی استعفیٰ آچکا ہے۔

بریٹ مک کے عہدے کی معیاد فروری 2019 میں پوری ہونے والی تھی۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق اُنھوں نے شام سے امریکی افواج کی واپسی کے صدارتی فیصلے پر اعتراض کیا تھا۔

عالمی خبررساں ایجنسی نے انتہائی ذمہ دار ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ جم میٹس کے جانے کے فیصلے کا بریٹ مک کے مستعفی ہونے میں بڑا کردار ہے۔

سابق امریکی صدر بارک اوبامہ نے بریٹ مک  کو اکتوبر 2015 میں اس منصب پہ تعینات کیا تھا۔ وہ شمالی شام میں امریکی پالیسی مرتب کرنے کا باعث بنے تھے۔

ان ہی کی طے کردہ پالیسی کی وجہ سے شام میں سیرین ڈیموکریٹک فورسز کی امریکہ کی جانب سے حمایت کی گئی۔سیرین ڈیمو کریٹک فورسز کرد اور عرب ملیشیاؤں پر مشتمل ایک ایسا اتحاد ہے جو امریکی حمایت کے ساتھ گزشتہ سالوں میں داعش سے نمٹتا آیا ہے۔

شام میں امریکی حمایت سے قائم کیے جانے والے ’اتحاد‘ نے رقہ کے کلیدی شہر کو واگزار کرایا جس میں کسی وقت داعش نے خود ساختہ خلافت کے قیام کا بھی اعلان کردیا تھا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس خیال کے حامی ہیں کہ داعش کو شکست ہوچکی ہے اس لیے اب وہاں سے امریکی افواج کو نکل جانا چاہیے جب کہ بریٹ مک کو یقین ہے کہ شدت پسندوں کے خلاف لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے اس لیے وہاں امریکی افواج کی موجودگی بہت ضروری ہے۔

امریکی نمائندہ خصوصی بریٹ مک گرک کا مؤقف ہے کہ داعش کے خاتمے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ دولت اسلامیہ کا بھی خاتمہ ہو گیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ دولت اسلامیہ طویل مدتی حکمت عملی ہی سے ختم ہوگی۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو اعلان کیا تھا کہ سیکریٹری دفاع جم میٹیس آئندہ سال فروری 2019 کے آخر میں اپنا عہدہ چھوڑ دیں گے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر جاری کردہ اپنے پیغام میں کہا تھا کہ ’’وہ جلد ہی نئے سیکریٹری دفاع کے نام کا اعلان کردیں گے‘‘۔

عالمی سیاسی مبصرین کے مطابق جم میٹس کا استعفیٰ اس لحاظ سے نہایت معنی خیز تھا کہ یہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا تھا کہ جب امریکہ نے شام سے اپنی افواج کے انخلا کا باضابطہ اعلان صرف 24 گھنٹے قبل ہی کیا تھا۔

عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان پر خود صدر کے سیاسی اتحادی اور اراکین کانگریس حیران رہ گئے تھے۔

امریکی صدر نے جمعرات کو اپنے ٹوئٹ پیغام میں کہا تھا کہ ’’جم میٹس کے دور میں امریکی فوج کو نئے ہتھیاروں کی خریداری سمیت کئی اہم کامیابیاں ملی ہیں‘‘۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی صدر کے ٹوئٹ کے بعد امریکی ادارے ’پینٹاگون‘ نے جم میٹس کا ایک خط جاری کیا جس سے عالمی عسکری مبصرین کو یہ تاثر ملا کہ وہ ریٹائر نہیں کیے جا رہے ہیں بلکہ ازخود اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوشی اختیار کررہے ہیں۔

عالمی خبررساں ادارے نے اس وقت یہ بھی دعویٰ بھی کیا تھا کہ پینٹاگون خود امریکی صدر کے فیصلے سے متفق نہیں ہے اور جم میٹس کا استعفیٰ اسی اختلاف کا شاخسانہ ہے۔

عالمی تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ ٹرمپ اور جم میٹس کے درمیان روسی صدر ولادی مر پیوٹن کے متعلق بھی اختلافات شدت اختیار کرچکے تھے۔

عالمی ذرائع ابلاغ پہلے بھی یہ بات کہہ چکے ہیں کہ جِم میٹس کو یقین ہے کہ روسی صدرنیٹو اور امریکہ کے یورپی اتحادیوں کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ امریکی صدر کے خیال میں پیوٹن بے انتہا شاندار قائدانہ صلاحیت کے حامل ہیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ دنیا کے بڑے صنعتی ممالک کی تنظیم جی-8 میں بھی روس کی رکنیت کی بحالی کی تجویز دے چکے ہیں۔ جم میٹس کے متعلق عالمی برادری بخوبی آگاہ ہے کہ وہ ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کو برقرار رکھنے کے بھی حامی تھے۔ ان کے خیال میں ایران کے ساتھ قائم جوہری معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم نہیں کرنا چاہیے۔

امریکی سیکریٹری دفاع جم میٹس کا شمار ان افراد میں کیا جاسکتا ہے جو ٹرمپ کابینہ میں طویل عرصے تک اپنے منصب پہ برقرار رہے ۔

جم میٹس کی شناخت طویل فوجی کیریئر ہے۔ انہوں نے زندگی کے 44 سال امریکی فوج کی میرین کور میں گزارے ہیں۔

روس کے ذرائع ابلاغ کے مطابق روسی صدر ولادی مر پیوٹن نے شام سے امریکی افواج کے اچانک انخلا کے فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہاں ان کی موجودگی غیرقانونی اور خطے میں حصول امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ تھی۔

ماسکو میں جمعرات کو منعقدہ چودھویں سالانہ اخباری کانفرنس میں موجود تقریباً 1700 صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ٹرمپ کے اس اندازے اتفاق کرتے ہیں کہ شام میں داعش کو زیادہ تر شکست ہوچکی ہے۔

روسی صدر اس خیال سے متفق تھے کہ اب امریکی افواج کی وہاں کوئی ضرورت نہیں ہے۔

روس کے صدرنے اقوام عالم کو یاد دلایا تھا کہ امریکہ، شام میں اقوام متحدہ کی حمایت کے بغیر موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نہ ہی امریکہ کو حکومت شام نے مدعو کیا تھا۔

روسی صدر ولادی مر پیوٹن نے اپنے خطاب میں اس بات پر شک کا اظہار کیا تھا کہ شام سے امریکی افواج کا انخلا عمل میں آئے گا۔ اس ضمن میں ان کا مؤقف تھا کہ ’’ہمیں ابھی تک امریکی افواج کے انخلا کے آثار دکھائی نہیں دیتے ہیں۔

ولادی مر پیوٹن کا اس حوالے سے استفسار کیا تھا کہ افغانستان میں امریکہ کتنے سالوں سے موجود ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ وہ 17 سالوں سے موجود ہے اور ہر سال کہتا ہے کہ اپنی افواج واپس بلارہا ہے۔


متعلقہ خبریں