اومنی، زرداری اور بحریہ گروپ کی جائیدادیں منجمد کرنے کا حکم


لاہور: سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں اومنی گروپ زرداری گروپ اور بحریہ گروپ کی جائیدادیں منجمد کرنے کا حکم دے دیا جب کہ تینوں گروپس کی مخصوص جائیداد کی خریدوفروخت اور ٹرانسفر پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔

سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں منی لانڈرنگ ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی۔ سابق صدر آصف علی زرداری عدالت میں پیش نہیں ہوئے تاہم فاروق ایچ نائیک، سردار لطیف کھوسہ اور دوسرے وکلا نے آصف زرداری کی نمائندگی کی۔

سپریم کورٹ نے سابق صدر آصف علی زرداری، بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض، زین ملک اور فریال تالپور کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 31دسمبر تک جواب طلب کر لیا ہے۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے عدالت سے تمام افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کرنے کی استدعا کی، جس پر چیف جسٹس نے ایف آئی اے کو وزارت داخلہ کے پاس درخواست دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اس کا فیصلہ وہ کریں گے۔

چیف جسٹس نے جے آئی ٹی کی رپورٹ فریقین کو دینے کا حکم دیتے ہوئے فاروق ایچ نائیک کو جواب جمع کرانے کا حکم دیا۔

جے آئی ٹی رپورٹ عدالت میں پیش

جے آئی ٹی کے سربراہ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ جعلی بینک اکاؤنٹس سے آصف علی زرداری کے ذاتی اخراجات کی ادائیگیاں کی گئیں جب کہ ایک کروڑ 20 لاکھ روپے سے ایک کروڑ 50 لاکھ روپے کا خرچ جعلی بینک اکاؤنٹس سے ادا کیا جاتا رہا ہے۔ بلاول ہاؤس کے کتے کا کھانا اور 28 صدقے کے بکروں کے اخراجات بھی جعلی بینک اکاؤنٹس سے کیے گئے۔

عدالتی حکم پر جے آئی ٹی کی رپورٹ عدالت میں پروجیکٹر پر چلائی گئی۔

جے آئی ٹی کے سربراہ نے مؤقف اختیار کیا کہ کراچی اور لاہور میں بلاول ہاؤس کے پیسے جعلی اکاؤنٹس سے ادا کیے گئے اور بلاول ہاؤس لاہور کی اراضی زرداری گروپ کی ملکیت ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ اگر اراضی گفٹ کی گئی تھی تو پیسے کیوں ادا کیے گئے، کیا گفٹ قبول نہیں کیا گیا تھا ؟

سربراہ جے آئی ٹی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ زرداری گروپ نے 53 ارب روپے سے زائد  کے قرضے حاصل کیے جس میں سے 24 ارب روپے کا قرضہ سندھ بینک سے لیا گیا جب کہ اومنی گروپ نے اپنے گروپ کو پانچ حصوں میں تقسیم کر کے قرضے لیے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سندھ بینک کے اثاثوں کی ملکیت کیا ہے ؟

جے آئی ٹی کے سربراہ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سندھ بینک کے اثاثوں کی مالیت 16 ارب روپے ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ چار ارب روپے کا قرضہ دے سکتا ہے جب کہ اومنی گروپ نے اپنے گروپ کو پانچ حصوں میں تقسیم کر کے قرضے لیے ہیں۔

“زرداری گروپ ،بحریہ اور اومنی گروپ کا ٹرائیکا ہے”

جے آئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ اومنی گروپ سے زرداری گروپ کے ذاتی اخراجات بھی ادا کیے جاتے رہے ہیں جب کہ اومنی گروپ کی شوگر ملز کے اکاؤنٹس سے ایک کروڑ 20 لاکھ سے ایک کروڑ 50 لاکھ روپے تک کی رقم زرداری گروپ کو ذاتی استعمال کے لیے دی جاتی رہی ہے اور ان اخراجات کی تفصیلات کے مطابق کپڑوں، کھانے اور کتے کےاخرجات بھی شامل ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ زرداری گروپ ،بحریہ اور اومنی گروپ کا ٹرائیکا ہے۔

چیف جسٹس نے اومنی گروپ کے مالکان کے وکلا منیر بھٹی اور شاہد حامد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے اومنی گروپ کے مالکان کو غرور ختم نہیں ہوا ہے۔ قوم کا اربوں روپے کھا گئے اور پھر بھی بدمعاشی کر رہے ہیں۔ انہیں اڈیالہ جیل سے کہیں اور منتقل کرنا پڑے گا۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ انور مجید کے ساتھ اب کوئی رحم نہیں کیا جائے گا۔ انور مجید کے وکلا نے فیس لی ہے انہیں سنیں گے لیکن فیصلہ ہم نے ہی کرنا ہے۔

چیف جسٹس نے آصف زرداری کے وکیل سے بھی مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اربوں روپے کھا گئے ہیں معاف نہیں کیا جائے گا۔

کیس کی مزید سماعت 31 دسمبر تک ملتوی کر دی گئی۔

کیس کی سماعت کے بعد پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کی جانب سے یک طرفہ کارروائی کی جارہی ہے جس کے لیے بعد میں حکمت عملی کا اعلان کیا جائے گا۔

ذرائع کے مطابق جعلی بینک اکاؤنٹس کی تحقیقات  کے لیے قائم کی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے دس سے زائد جلدوں پر مشتمل سربمہر رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی اور جے آئی ٹی کے مطابق 104 جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے تقریباً 210 ارب روپے کی ٹرانزیکشنز ہوئیں۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کے خلاف زیرتفتیش منی لانڈرنگ کیس میں 35 ارب روپے میں سے 23 ارب روپے کی رقم غیر قانونی طور پر منتقل کرنے کے حوالے سے خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی تھی۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھایا گیا تھا، جب اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔


متعلقہ خبریں