پھانسی کے قیدی کی آخری خواہش – رفیع کا گانا


اسلام آباد: یاسمین خالد رفیع نےلکھا ہے کہ ’’محمد رفیع کی عادت تھی کہ وہ جب بھی بیرون ملک کسی شو میں جاتے تھے تو وہاں کی مقامی زبان میں ایک گیت ضرور گاتے تھے‘‘۔ عظیم گلوکار محمد رفیع کی بہو نے یہ بات اپنے سسر کے متعلق تحریر کردہ ایک کتاب میں لکھی ہے۔

محمد رفیع کے متعلق لکھی گئی یہ بات اس لحاظ سے بھی درست ہے کہ انہوں نے ہندی کے علاوہ آسامی، اوریا، پنجابی، بنگالی، سندھی، کناڈا، گجراتی، تیلگو، سنہالا، انگریزی، فارسی، ہسپانوی اور ڈچ زبانوں میں بھی گیت و نغمے ریکارڈ کروائے۔

بڑے استاد غلام علی خان سے موسیقی کے اسرار و رموز سیکھنے والے محمد رفیع نے 24 دسمبر1924 کو کوٹلہ سلطان سنگھ، امر تسر کے ایک گاؤں میں حاجی علی محمد کے گھر جنم لیا تھا۔ امرتسر کے علاقے کوٹلہ سلطان سنگھ میں آج بھی ان کی برسی اور جنم دن نہایت عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔

1935 میں جب ان کا خاندان ہجرت کرکے بھاٹی گیٹ لاہور منتقل ہوا تو ان کے والد نے نور محلہ میں حجام کی دکان کھول لی۔ اسی دکان کے ’تھڑے‘ پر بیٹھ کر وہ گنگنایا کرتے تھے۔

بالی ووڈ میں مشہور ہے کہ انہوں نے گلوکاری کا آغاز اپنے محلے میں آنے والے فقیروں کی صداؤں کی نقالی کرکے کیا تھا۔ بھاٹی گیٹ لاہور میں واقع نور محلہ میں قیام پذیر ان کے پرانے محلے دار انہیں اور ان کے خاندان کو بڑی محبت اور پیار سے نہ صرف یاد کرتے ہیں بلکہ فخریہ طور پر نئے آنے والوں کو بتاتے ہیں کہ یہاں برصغیر کا عظیم گلوکار محمد رفیع اپنا بچپن بتا کرگیا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ نے محمد رفیع کے متعلق لکھا تھا کہ ’’موسیقار نوشاد اکثر محمد رفیع کے متعلق  دلچسپ قصہ سناتے تھے کہ ایک مرتبہ ایک مجرم کو پھانسی دی جا رہی تھی، اس سے جب اس کی آخری خواہش پوچھی گئی تو اس نے نہ تو اپنے خاندان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی اور نہ ہی کسی خاص کھانے کی فرمائش کی مگر جب اس نے خواہش ظاہر کی تو جیل ملازمین تک حیران رہ گئے‘‘۔

بی بی سی کے مطابق نوشاد بتاتے تھے کہ ’’ پھانسی پانے والے نے کہا کہ وہ مرنے سے پہلے محمد رفیع کا فلم ’بیجو باورا‘ کے لیے گایا گیا گانا ’او دنیا کے رکھوالے’ سننا چاہتا ہے۔ اس پر ایک ٹیپ ریکارڈر لایا گیا اوراس کے لیے وہ گیت بجایا گیا۔ اس طرح کا دوسرا کوئی واقعہ شاید ہی کہیں اور درج ہو۔

برطانوی نشریاتی ادارے نے لکھا ہے کہ نوشاد کا کہنا تھا کہ اس گانے کے لیے محمد رفیع نے 15 دن تک اس قدر ریاضت کی تھی کہ ریکارڈنگ کے بعد بہت سے افراد کا خیال تھا کہ وہ اب مستقبل میں کبھی گا نہیں سکیں گے کیونکہ ان کی آواز بالکل بیٹھ گئی تھی۔

۔۔۔ مگر عظیم گلوکار محمد رفیع نے سب کے اندازے یکسر غلط ثابت کیے اور عالمی شہرت سمیٹی۔

تاریخ بتاتی ہے کہ عظیم گلوکار محمد رفیع نے اپنی پہلی عوامی پرفارمنس محض 13 سال کی عمر میں لاہور میں دی تھی۔ 1947 میں انہوں نے بحیثیت ’پلے بیک‘ سنگرکے طورپر فلمی کیریئر کا آغاز زینت بیگم کے ساتھ فلم ’گل بلوچ‘ کے ایک ’ڈوئیٹ‘ سے کیا تھا۔ اس گانے کے بول تھے ’’سوہنیے نی – ہیریے نی‘‘۔

بالی ووڈ میں بننے والی فلم ’جگنو‘ میں جب ان کی آواز میں ایک گیت ’’یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے‘‘ گونجا تو وہ شہرت کی اس بلندی پر راتوں رات پہنچا کہ محمد رفیع نے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اس کے بعد وہ معروف گلوکار بن چکے تھے۔

آل انڈیا ریڈیو اسٹیشن لاہورنے مستقبل کے عظیم فنکار کو مدعو کیا اور سامعین کے کانوں میں محمد رفیع کی آواز نے رس گھولا۔

محمد رفیع فلم ’لیلیٰ مجنوں‘ کے ایک گانے میں اسکرین پر بھی دکھائی دیے تھے۔ اس گانے کے بول تھے ’’تیرا جلوہ جس نے دیکھا‘‘۔

1948 میں مہاتما گاندھی کی موت کے بعد محمد رفیع نے ان کے لیے ایک سدا بہار گانا تخلیق کیا تھا جس کے بول تھے ’’سنو سنو اے دنیا والو- باپو کی امر کہانی‘‘۔

محمد رفیع نے عظیم موسیقار نوشاد کے ساتھ پہلا گانا فلم ’پہلے آپ‘ کے لیے 1944 میں ریکارڈ کرایا تھا۔

فلم ’مایا‘ 1961 میں بنائی گئی ۔ اس فلم کا ایک گانا محمد رفیع اور لتا منگیشتر نے گانا تھا لیکن اسی دوران دو عظیم فنکاروں میں ہونے والی تلخ کلامی اس قدر بڑھ گئی کہ لتا نے رفیع کے ساتھ گانے کی ریکارڈنگ کرانے ہی سے انکار کردیا۔

کہاجاتا ہے کہ میوزک ڈائریکٹر جے کشن نے دونوں فنکاروں کے درمیان صلح کرائی تھی۔

برصغیر میں ’ملکوتی‘ حسن کی حامل قرار دی جانے والی مدھو بالا کے شریک سفر اور معروف گلوکار و اداکار کشور کمار نے ایک مرتبہ محمد رفیع کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ رفیع صاحب ایک ہی گانے کو سینکڑوں انداز سے گا سکتے ہیں لیکن میں دو یا تین سے زیادہ طریقے سے نہیں گا سکتا ہوں‘‘َ۔

محمد رفیع نے ہندی فلموں کے لیے چار ہزار 516 گانے گائے۔ انہوں نے کل گیارہ مختلف زبانوں  میں 28 ہزار کے قریب گیت  گائے ہیں۔

ان کی بہو یاسمین خورشید کا کہنا تھا کہ محمد رفیع نہ تو وہ شراب پیتے تھے، نہ سگریٹ پیتے تھے اور نہ ہی پان کھاتے تھے۔ محمد رفیع نہایت دھیمی آواز میں بات کرتے تھے۔

بالی وڈ کی پارٹیوں میں بھی محمد رفیع کو جانے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ گھر میں وہ صرف دھوتی کرتا پہنتے تھے مگر ریکارڈنگ پر ہمیشہ سفید قمیض اور پتلون پہنا کرتے تھے۔

پاکستان سے آنے والے مہمانان کی بہت عزت کیا کرتے تھے، انتہائی شفقت و محبت سے گھر پر کھانے کے لیے مدعو کرتے تھے جہاں ان کی تواضع دیسی کھانوں سے کی جاتی تھی۔ ان کے گھر کا ماحول خالصتاً پنجاب کے کلچر کا نمائندہ تھا۔ وہ پتنگ اڑانے کے بھی بہت شوقین تھے۔

امرتسر میں جنم لینے اور بھاٹی گیٹ لاہور میں اپنا بچپن بتانے والے محمد رفیع کا انتقال 31 جولائی 1980 کو دل کے دورے کی وجہ سے ہوا۔ اس دن انہوں نے چند گھنٹے قبل ہی لکشمی کانت پیارے لال کی موسیقی سے مزین فلم ’آس پاس‘ کا گانا ’’ شام پھر کیوں اداس ہے دوست‘‘ ریکارڈ کرایا تھا۔

بالی ووڈ میں کہا جاتا ہے کہ لکشمی کانت پیارے لال کا گیت ریکارڈ کرانے کے بعد اس دن وہ جلدی ہی گھر چلے گئے تھے جہاں جان لیوا دل کا دورہ انہیں پڑا۔ شاید! سروں کے بے تاج بادشاہ کو دار فانی سے کوچ کرنے کی جلدی تھی۔

محمد رفیع کے لازوال گیتوں میں کیا ہوا تیرا وعدہ ، چھلکائے جام آئیے آپ کی آنکھوں کے نام، چرا لیا ہے تم نے جو دل کو، پتھر کے صنم تجھے ہم نے محبت کا خدا جانا، یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں، آج پرانی راہوں سے کوئی مجھے آواز نہ دے، ہم تم سے جدا ہو کے مرجائیں گے رو رو کے، بہارو پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے، دل کے جھروکے میں تجھ کو بٹھا کر، یہ چاند سا روشن چہرہ زلفوں کا رنگ سنہرا ، تم جو مل گئے ہو تو یہ لگتا ہے کہ جہاں مل گیا، او دنیا کے رکھ والے سن درد بھرے میرے نالے ، یہ جو چلمن ہے دشمن ہے، سارے شہر میں آپ سا کوئی نہیں، رنگ اور نور کی بارات کسے پیش کروں، مجھے دنیا والو شرابی نہ سمجھو، نین لڑ جائیں وے اور چھو لینے دو نازک ہونٹوں کو کچھ اور نہیں ہیں جام ہیں شامل ہیں۔

محمد رفیع کے چاہنے والے جن کی تعداد بلاشبہ لاکھوں و کروڑوں میں ہے آج ان کا ’جنم دن‘ منارہی ہے اوراپنے وقت کے عظیم فنکار کو خراج عقیدت پیش کررہی ہے۔


متعلقہ خبریں