2018: پاکستان سے کن کن شخصیات کو اپنے ہمراہ لے گیا


اسلام آباد: 2018 اپنے اختتامی مراحل بڑی تیزی کے ساتھ طے کررہا ہے۔ اس سال جہاں اہل وطن کو کئی خوشیاں نصیب ہوئیں وہیں متعدد ایسے اشخاص بھی تھے جو دار فانی سے کوچ کرکے پاکستانیوں کوغمزدہ کرگئے۔

ہم نیوز نے ایسی ہی چیدہ چیدہ شخصیات کا مختصراً جائزہ لیا ہے کہ جن  کو 2018 اپنے ہمراہ لے گیا اوراہل وطن کو دکھ، صدمہ اور تکلیف دے گیا۔

سپاہی مقبول حسین

جنگی ہیرو سپاہی مقبول حسین سی ایم ایچ اٹک میں انتقال کر گئے۔ 1965 کی جنگ کے دوران وہ بھارتی فوج کے جنگی قیدی بنے جس کے دوران ان پر بے پناہ تشدد کیا گیا اور ظلم کی حد اس طرح توڑی گئی کہ ان کی زبان تک کاٹ دی گئی۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق سپاہی مقبول حسین 40 سال بھارتی جیلوں میں قید رہنے کے بعد 2005 میں رہا ہوئے تھے۔ انہیں ہمت، بہادری اور جرات پر ستارہ جرات سے نوازا گیا تھا۔ وہ سی ایم ایچ میں زیرعلاج تھے۔

سپاہی مقبول حسین 1965 کی جنگ میں سری نگر میں ایک آپریشن میں زخمی ہو کر انڈیا کے قیدی بنے تھے۔ ان پر بھارتی فوجیوں نے اتنا تشدد کیا تھا کہ وہ اپنی یادداشت بھی کھو بیٹھے تھے۔

مشتاق احمد یوسفی

برصغیر میں اردو کے ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی 95 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ وہ طویل عرصے سے بستر علالت پر تھے۔

آپ چار ستمبر 1923 کو راجستھان کے ضلع ٹونک میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد 1956 میں خاندان کے ہمراہ کراچی تشریف لائے۔

شگفتہ انداز میں طنزیہ جملوں کی جو بے ساختگی ان کی کتب خاکم بدہن، چراغ تلے، زرگزشت، آب گم اور شام شعریاراں میں ملتی ہے وہ انہی کا خاصہ ہے۔ مزاح نگاری کے ساتھ ساتھ نثرنگاری میں بھی انہیں ملکہ حاصل تھا۔

عوام الناس کی بڑی تعداد اس حقیقت سے بھی شاید واقف نہ ہو کہ ان کے لبوں پہ جن جملوں سے مسکراہٹ بکھرتی ہے ان کے خالق نے اپنے کیریئر کا آغاز شعبہ بینکاری سے کیا تھا۔

مشتاق احمد یوسفی کی صلاحیتوں کے اعتراف میں انہیں ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔

فہمیدہ ریاض

معروف شاعرہ اور ناول نگار فہمیدہ ریاض 72 برس کی عمر میں لاہور میں انتقال کر گئیں۔ وہ گزشتہ کئی ماہ سے علیل تھیں۔

ترقی پسند شاعرہ کی حیثیت سے معروف فہمیدہ ریاض جولائی 1946 میں میرٹھ  سے تعلق رکھنے والے ایک ادبی خاندان میں پیدا ہوئی تھیں۔ قیام پاکستان کے بعد ان کے خاندان نے ہجرت کی اور سندھ کے دوسرے بڑے شہر جو ’ہوادانوں کا شہر‘ بھی کہلاتا تھا میں سکونت اختیار کی۔

‘پتھر کی زبان’ ان کا پہلا شعری مجموعہ تھا جو 1978 میں سامنے آیا۔ انہوں نے شاعری اور فکشن پر 15 کتب اور سینکڑوں مضامین تحریر کیے۔

فہمیدہ ریاض کا مجموعہ کلام ’بدن دریدہ‘ جب شائع ہوا تو ان پر تنقید اورنکتہ چینی کے کئی باب رقم کرگیا مگر پوری زندگی انہوں نے کسی بھی قسم کی تنقید کی پرواہ نہ کی اور جو راستہ اپنے لیے متعین کیا تھا اس پر کاربند رہیں۔

زندہ بہار، گوداوری اور کراچی ان کے مشہور ناول ہیں تو پتھر کی زبان، دھوپ، پورا چاند اور آدمی کی زندگی ان کے وہ مجموعہ کلام ہیں جن کی شہرت ایک عالم میں پھیلی۔

ادبی حلقوں میں انہیں اس وقت اور بھی سراہا گیا جب مثنوی مولانا رومؒ کا اردو میں ترجمہ کیا۔

پاکستان میں جمہوریت اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے بھی انہوں نے غیر معمولی خدمات سرانجام دیں۔ ان کے چاہنے والوں نے انہیں دور آمریت میں امید کی کرن بھی قرار دیا۔

فہمیدہ ریاض دو سال چیف ایڈیٹر اردو ڈکشنری بورڈ کراچی رہیں۔ وہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کونسل اسلام آباد کی بھی سربراہ رہیں۔

’از خود جلاوطنی‘ کاٹنے والی فہمیدہ ریاض کو  حکومت پاکستان نے ادبی خدمات کے اعتراف میں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز سے نوازا۔

انہیں 2017 میں ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے ہیمت ہیلمن ایوارڈ برائے ادب، 2005 میں المفتاح ایوارڈ برائے ادب و شاعری اور شیخ ایاز ایوارڈ بھی دیا گیا۔

بابا حیدر زمان

بابا حیدر زمان کو اس وقت ملک گیر شہرت ملی جب انہوں نے صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرکے صوبہ خیبرپختونخوا رکھنے کے فیصلے کے خلاف شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ایبٹ آباد اورملحقہ علاقوں میں بھرپور احتجاج کے دوران مثبت کردار ادا کیا۔

اسی احتجاج نے جب ’صوبہ ہزارہ‘ کے قیام کی ’جدوجہد‘ کا آغاز کیا تو وہ عملی سیاست میں بھرپور اور پوری قوت کے ساتھ متحرک رہے اور ریلیاں نکالتے ہوئے عوامی آگاہی مہم چلاتے رہے۔

ایک زمانے میں وہ نئے صوبوں کے قیام کی تحریک کے چیئرمین بھی قرار دیے گئے۔ اس ضمن میں انہوں نے ایم کیوایم، سرائیکی رہنماؤں اور فاٹا سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں سے بھی ملاقات کی۔

سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا آفتاب احمد خان شیرپاؤ کی صوبائی کابینہ میں وہ وزیر بھی رہ چکے تھے۔ انہوں نے دو مرتبہ سابق وزیراعظم میان نواز شریف کے خلاف قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا لیکن دونوں مرتبہ ناکام رہے۔

بیگم کلثوم نواز

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی شریک حیات اور تین مرتبہ خاتون اول رہنے والی بیگم کلثوم نواز بھی طویل علالت کے بعد لندن کے ایک اسپتال میں 68 سال کی عمر میں انتقال کرگیں۔

وہ کینسر کے مرض میں مبتلا تھیں اور لندن کے ایک نجی ہسپتال ’ہارلے اسٹریٹ کلینک‘ میں زیرِ علاج تھیں۔

بیگم کلثوم نواز کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں اس کی تصدیق 22 اگست 2017 کو لندن کے ایک اسپتال میں ہوئی تھی۔ ڈاکٹروں نے انہیں گلے کا کینسر تشخیص کیا تھا۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز 1950 میں لاہور میں پیدا ہوئی تھیں۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے لاہور سے حاصل کی اور پھر اردو ادب میں ایم اے کیا۔

بیگم کلثوم نواز نے پی ایچ ڈی بھی کیا تھا۔ وہ 1971 میں نواز شریف کی شریک سفر بنیں۔ ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں بھی ہیں۔

خاتون خانہ کی حیٖثیت سے زندگی گزارنے والی بیگم کلثوم نواز نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں میدان سیاست میں بھی قدم رکھا اور1999 سے لے کر 2002 تک پارٹی کی صدارت بھی کی۔

عدالتی فیصلے کے نتیجے میں جب میاں نواز شریف کو ’نااہل‘ قرار دیا گیا تو 2017 کے ضمنی انتخاب میں وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے امیدوار کی حیثیت سے میدان عمل میں اتریں اور این اے – 120 کی نشست پہ کامیابی حاصل کی مگر طبیعت کی ناسازی کے باعث وہ رکن قومی اسمبلی کا حلف نہیں اٹھا سکیں۔

جام معشوق علی خان

سندھ کے مرحوم وزیراعلیٰ جام صادق علی خان کے صاحبزادے اور سابق وفاقی وزیر جام معشوق علی خان ہیوسٹن، امریکہ کے ایک اسپتال میں دوران علاج دار فانی کو کوچ کرگئے۔

سانگھڑ سے تعلق رکھنے والے جام معشوق علی خان اسپتال میں کچھ عرصے سے زیرعلاج تھے۔

سیاسی میدان میں وہ پی ایم ایل (ن) کے ساتھی تھے۔ 2015 میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے انہیں سیاسی امور کا مشیر مقرر کیا تھا مگر ان کا عہدہ وفاقی وزیر کے مساوی تھا۔

پی ایم ایل (ن) کے دور حکومت میں جب شاہد خاقان عباسی وزیراعظم کے منصب پہ فائز ہوئے تو 2017 میں بھی انہیں مشیر برائے وزیراعظم مقرر کیا گیا۔

عاصمہ جہانگیر

انسانی حقوق کی علمبردار اور ممتاز قانون دان عاصمہ جہانگیر دل کا دورہ پڑنے سے 66 برس کی عمر میں انتقال کرگئیں۔ انھیں دل کا دررہ پڑنے پر نجی اسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہیں ہو سکیں اور داعی اجل کو لبیک کہہ گئیں۔ انہوں نے دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کو سوگوار چھوڑا۔

جرات مند خاتون عاصمہ جہانگیر 27 جنوری 1952 کو لاہور میں پیدا ہوئی تھیں۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی، 1980 میں لاہور ہائی کورٹ اور 1982 میں سپریم کورٹ سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔

وہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی پہلی خاتون صدربھی منتخب ہوئیں۔

جنرل ضیاالحق کے دور حکومت میں وہ جیل بھیجی گئیں اور جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے بھی انہیں نظربند کیا۔ انھوں نے ہیومن رائٹس کمیشن اور ویمنز ایکشن فورم کی بنیاد بھی رکھی۔

عاصمہ جہانگیر کو پاکستان میں ہلالِ امتیاز اور ستارہ امتیاز سے نوازا گیا جب کہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کی جانب سے بھی ایوارڈ دیا گیا۔

حاجی محمد عبدالوہاب

امیر تبلیغی جماعت اور ممتاز مذہبی شخصیت حاجی محمد عبدالوہاب طویل علالت کے بعد لاہور میں انتقال فرما گئے۔ تبلیغی مرکز رائے ونڈ سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق انہیں ڈینگی بخار کے باعث ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ وہ سانس لینے میں تکلیف محسوس کررہے تھے اور سینےمیں بھی انہیں تکلیف تھی۔

حاجی محمد عبدالوہاب یکم جنوری 1923 کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ اسلامیہ کالج لاہور سے فارغ التحصیل تھے۔ وہ تبلیغی جماعت کے تیسرے امیر تھے۔

انہوں نے اپنی پوری زندگی تبلیغ دین اور اس کی اشاعت کے لیے وقف کر رکھی تھی۔

2018 میں عمان کے تحقیقی ادارے ’رائل اسلامک اسٹریٹیجک اسٹڈیز سینٹر‘ نے دنیا کی پانچ سو بااثر ترین مسلمان شخصیات کی فہرست شائع کی تھی۔

اس فہرست میں پاکستان کی عالمی سطح پر سب سے بااثر قرار پائی جانے والی شخصیات میں تبلیغی جماعت کے سربراہ حاجی محمد عبدالوہاب کا 10 واں نمبر تھا۔

مظہر کلیم ایم اے

’عمران سیریز‘ کے حوالے سے عالمی شہرت یافتہ ممتاز ناول نگار مظہر کلیم -ایم اے طویل علالت کے بعد 75 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ وہ بچوں کے معروف ادیب کی شناخت کے حامل تھے اور قانون دان کی حیثیت سے بھی ممتاز تھے۔

مظہر نواز خان المعروف ’مظہر کلیم – ایم اے‘ 22 جولائی 1942 کو ملتان کے علاقہ کڑی افغاناں میں پیدا ہوئے تھے۔
جاسوسی ناول نگاری میں عالمی شہرت یافتہ ابن صفی کے انتقال کے بعد مظہر کلیم نے ان کے تخلیق کردہ کردار’علی عمران‘ کے نام سے ممتاز مقام حاصل کرنے والی ’عمران سیریز‘ کو ہی آگے بڑھایا اور بچوں کے لیے بھی سینکڑوں ناول قلمبند کیے۔

مظہر کلیم ماہر قانون بھی تھے۔ وہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن ملتان کے سینئر نائب صدر بھی منتخب ہوئے لیکن ان کی شناخت وکالت کے بجائے قلم بنا۔ ان کے شائع شدہ ناولوں کی تعداد 600 کے قریب بتائی جاتی ہے۔

وہ ریڈیو پاکستان ملتان سے وابستہ رہے تھے اورپروگرام کے میزبان کی حیثیت سے بھی ملک گیر شہرت کے حامل تھے۔

مظہر کلیم نے بھی ابن صفی کی طرح کردار تخلیق کیے جو بطور خاص بچوں میں بہت مقبول ہوئے۔ ان کے کرداروں میں ’چلوسک ملوسک‘، ’چھن چھنگلو‘ اور ’آنگلو بانگلو‘ نے کافی شہرت حاصل کی۔

مدیحہ گوہر

’اجوکا تھیٹر‘ کی بانی اورممتازآرٹ ڈائریکٹر مدیحہ گوہر 62 سال کی عمر میں انتقال کرگئیں۔ وہ کینسر کے موذی مرض میں مبتلا تھیں۔

مدیحہ گوہربہترین فنکارہ فنکارہ، معروف ڈائریکٹر اور سماجی کارکن کی ٓحیثیت سے شہرت کی حامل تھیں۔ وہ تھیٹر کے ذریعے سماج میں تبدیلی لانے کی خواہش مند تھیں اوراسی لیے انہوں نے اجوکا تھیٹر کی بنیاد رکھی تھی کیونکہ انہیں یقین تھا کہ وہ جو سوچتی اورخواب دیکھتی ہیں اسے روبہ عمل بھی لایا جاسکتا ہہے۔

اجوکا تھیٹر کے ذریعے مدیحہ گوہر نے 1984 سے انسانی حقوق اور خواتین کے سماجی مسائل پر آواز اٹھائی۔ یہ ان کی محنت اور لگن کا نتیجہ تھا کہ اجوکا تھٹر کو پاکستان سے باہر یعنی  بھارت، بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا، عمان، ایران، مصر، امریکہ، برطانیہ اور ناروے میں بھی مقبولیت ملی اور وہاں فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع دیا گیا۔

مدیحہ گوہر پہلی پاکستانی خاتون ہیں جنہیں اجوکا تھیٹر کے حوالے سے ’پرنس کلاؤز ایوارڈ‘ دیا گیا۔ انہیں زندگی میں سخت مزاحمت کا بھی سامنا رہا۔ ان کے خاوند شاہد ندیم بھی ممتاز ڈائریکٹر ہیں۔

قاضی واجد

پاکستان فلم، ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے ممتاز اداکار قاضی واجد کو 87 سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ انتقال کا سبب دل کا دورہ قرار دیا گیا۔

انہوں نے اپنے فنی کیرئیر کا آغاز ریڈیو سے کیا تھا۔ ان کا شمار پاکستان ریڈیو کے اہم فنکاروں میں ہوتا تھا۔ وہ 25 سال سے زائد عرصے تک ریڈیو سے منسلک رہے۔

قاضی واجد 26 مئی 1930 کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم لاہور میں ہوئی جس کے بعد وہ 1956 میں ریڈیو سے منسلک ہوگئے۔ جب ٹیلی ویژن نے ملک میں قدم رکھا تو وہ اس سے منسلک ہوگئے۔

قاضی واجد کا شمار پاکستان کی ریڈیو انڈسٹری کے اہم ناموں میں کیا جاتا ہے اور انہوں نے اپنے فنی کیریئر کا آغاز ریڈیو پاکستان سے ہی کیا اور وہ 25 سال تک ریڈیو سے منسلک رہے۔

مرحوم قاضی واجد نے پاکستان ٹیلی ویژن کے متعدد ڈراموں سمیت فلموں میں بھی کام کیا اور اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔

26 مئی 1930 کولاہور میں پیدا ہونے والے قاضی واجد نے ابتدائی تعلیم لاہور سے ہی مکمل کی جبکہ 1956 میں ریڈیو انڈسٹری میں قدم رکھا جبکہ بعد ازاں ٹیلی وژن انڈسٹری سے منسلک ہوگئے۔

خدا کی بستی، کرن کہانی، آنگن ٹیڑھا، تعلیم بالغاں، دھوپ کنارے، تنہائیاں سمیت متعدد ایسے ڈرامے ہیں جن میں انہوں نے اپنی اداکاری کے انمٹ نقوش ثبت کیے ہیں۔

حکومت پاکستان کی جانب سے 1988 میں قاضی واجد کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے بھی  نوازا گیا۔

جمشید مارکر

دنیا میں طویل ترین عرصے تک اور سب سے زیادہ ممالک میں سفیر رہنے کا اعزازرکھنے والے پاکستان کے سفارتکار جمشید مارکر 96 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ طویل سفارتکاری کی وجہ سے ان کا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل کیا گیا تھا۔

جمشید مارکر نے اپنے 30 سالہ سفارتی کیریئر کا آغاز 1964 میں افریقی ملک گھانا میں بطور سفیر تعیناتی سے کیا تھا۔ انہوں نے فرانس، جاپان، امریکہ اور جینوا میں بھی فرائض سر انجام دیے۔ وہ 1988 سے 1994 تک اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دیتے رہے۔

پارسی گھرانے سے تعلق رکھنے والے جمشید مارکر 24 نومبر 1922 کو پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم اترکھنڈ کے علاقہ دھیرا دون میں کے ایک اسکول سے حاصل کی۔ وہ فورمین کرسچین کالج لاہور میں بھی زیرتعلیم رہے۔

انہیں کرکٹ سے خصوصی دلچسپی تھی جس کی وجہ سے سفارتکاری سے قبل وہ معروف کرکٹ کمنٹیٹر عمرقریشی کے ساتھ کرکٹ کمنٹری کرکے اپنے شوق کی تکمیل کرتے رہے۔ انہوں نے پہلی کمنٹری 1954 میں بھارتی کرکٹ ٹیم کے پہلے دورہ پاکستان کے موقع پر باغ جناح (لارنس گارڈن) سے کی تھی۔

جمشید مارکر کو فرانسیسی، جرمنی، انگریزی اور روسی زبانیں بولنے پر عبور تھا۔ انہوں نے بین الاقوامی تعلقات پر کئی کتب لکھیں، بیرون ممالک یونیورسٹیز میں لیکچر دیے اورعالمی جرائد میں مضامین تحریر کیے۔

زبیدہ طارق

حیدرآباد دکن سے تعلق رکھنے والے معروف خاندان کی رکن اور ممتاز شیف کی حیثیت سے اپنی شناخت بنانے والی زبیدہ طارق کراچی میں انتقال کرگئیں۔ وہ ممتاز اسکرپٹ رائٹر، مزاح نگار اور فنکار انور مقصود اور معروف ڈرامہ رائٹر فاطمہ ثریا بجیا کی بہن تھیں۔

زبیدہ طارق المعروف زبیدہ آپا ٹی وی انڈسٹری میں آنے والے انقلاب کے بعد اپنے گھریلو ’ٹوٹکوں‘ کی وجہ سے کافی معروف تھیں۔ وہ متعدد ٹی وی شوز کی میزبان و مہمان رہیں اور کئی کتب کی مصنفہ تھیں۔

زبیدہ آپا اپنے نو بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھیں۔

منو بھائی

ممتاز ڈرامہ نگار، کالم نگار اور مصنف منو بھائی 84 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ وہ طویل عرصے سے علیل اور لاہور کے ایک اسپتال میں زیرعلاج تھے۔

ترقی پسند نظریات کے حامل قرار دیے جانے والے منو بھائی 1933 میں وزیرآباد، پنجاب میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام منیر احمد قریشی تھا لیکن دنیا انہیں منو بھائی کے نام سے پہچانتی اور جانتی تھی۔

انہوں نے سونا چاندی سمیت متعدد شہرت یافتہ ڈرامے پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے تحریر کیے۔ ان کی خدمات پر 2007 میں انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔

ملک کے صحافتی و ادبی حلقوں میں منو بھائی کو ترقی پسند دانشورسمجھا جاتا تھا۔ صحافت اور ادب کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔

علی اعجاز

فلم، ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے ممتاز فنکار علی اعجاز کا 77 سال کی عمر میں انتقال ہوا۔ انہیں دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔

علی اعجاز نے اپنے فنی کیرئیر کا آغاز 1961 میں کیا۔ ان کے مشہور ڈراموں میں خواجہ اینڈ سنز، شیدا ٹلی اور کھوجی شامل ہیں۔

انہوں نے تقریباً 28 فلموں میں کام کیا جن میں اردو اور پنجابی فلمیں شامل ہیں لیکن 1980-90 کی دہائی میں وہ پنجابی فلموں کے سپر اسٹار تسلیم کیے جاتے تھے۔

ریڈیو، ٹیلی وژن اور فلموں کے معروف اداکار علی اعجاز دل کا دورہ پڑنے سے 77 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔

گزشتہ چند سالوں سے ان کی طبعیت ناساز تھی، ان پر ایک دہائی قبل فالج کا حملہ بھی ہوا تھا۔

مہوش فاروقی

زمبیل ڈراماٹک ریڈنگز کی شریک سربراہ مہوش فاروقی طویل علالت کے بعد انتقال کر گئیں۔ وہ ممتاز ماہر تعلیم اور اسٹیج کی بہترین اداکارہ بھی تھیں۔

مہوش فاروقی نے سات سال قبل عاصمہ مندروالا اور سیف حسن کے ساتھ مل کرزمبیل ڈراماٹک ریڈنگز کو تشکیل دیا تھا۔ اس کا مقصد ممتاز ڈرامہ رائٹرز کے ڈراموں و افسانوں کو براہ راست پڑھنا تھا جس میں انہیں کافی حد تک پذیرائی حاصل ہوئی۔

زمبیل ڈراماٹک ریڈنگز کے ذریعے سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر اور فیض احمد فیض سمیت دیگرممتاز ادیبوں، افسانہ نگاروں اور شعرا کی تخلیقات کو پیش کیا گیا ہے۔

مہوش فاروقی زمبیل ڈراماٹک ریڈنگز کے علاوہ حقوق نسواں کی بھی متحرک رکن تھیں۔ انہوں نے اس ضمن میں معروف کتھک ڈانسر شیما کرمانی کے ساتھ مل کر چار دہائیوں تک کام کیا۔

وہ کینسر کے مرض میں مبتلا تھیں۔ ان کا علاج جاری تھا لیکن وہ اس مرض کو شکست دینے میں ناکام رہیں اور زندگی کی بازی ہار گئیں۔

اولمپین منصور احمد

ہاکی کے عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی اولمپین منصور احمد طویل علالت کے بعد انتقال فرماگئے۔ قومی ہاکی ٹیم کے گول کیپر منصور احمد عارضہ قلب میں مبتلا اوراین آئی سی وی ڈی میں زیر علاج تھے۔

اولمپئن منصور احمد کو کچھ دن قبل دل میں تکلیف محسوس ہوئی تھی لیکن معاشی تنگدستی کے باعث انہیں کراچی کے جناح اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ ان کے متعلق اطلاع ملنے پر کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے ان کے تمام علاج معالجے کے اخراجات اٹھانے کا اعلان کیا تھا۔

قومی ہاکی ٹیم کے گول کیپر منصور احمد نے 1994 کے ہاکی ورلڈ کپ فائنل میں پینلٹی اسٹروک پر گول روک کر پاکستان کو عالمی چیمپئن کا اعزاز دلوایا تھا۔

لیجنڈ گول کیپرمنصور احمد نے 1986 سے 2000 تک قومی ہاکی ٹیم میں بحیثیت گول کیپر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے اپنے کیریئر میں 338 عالمی میچز کھیلے تھے۔

منصور احمد کو ایشیاء کے نمبر ون گول کیپر ہونے کا اعزاز بھی ملا تھا۔ اپنی زندگی میں انہوں نے کئی گولڈ اور سلور میڈلز حاصل کیے تھے۔

شرمین خان

پاکستان میں قومی ویمن کرکٹ شروع کرنے اوربین الاقوامی سطح پرملک کی نمائندگی کرنے والی سابق کرکٹرشرمین خان انتقال کرگئیں۔ لاہور میں ان کی تدفین ہوئی۔

ویمن کرکٹ کی سابق نامور کھلاڑی انگلینڈ سے واپس آئیں تو نمونیا کے مرض میں مبتلا تھیں۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 46 سال تھی ۔

شرمین اور ان کی بہن شازیہ نے پاکستان کی پہلی انٹرنیشنل ویمن کرکٹ ٹیم تشکیل دی تھی ۔ شرمین سیدھے ہاتھ سے بیٹنگ کرتی تھیں۔ وہ فاسٹ باؤلر بھی تھیں۔ انہوں نے دو ٹیسٹ میچوں اور 26 ایک روزہ بین الاقوامی میچز میں ملک کی نمائندگی کی تھی۔

ستمبر 1996 میں شرمین نے بین الاقوامی ویمن کرکٹ کونسل سے پاکستان کے لیے ممبر شپ حاصل کی اور اس کے بعد پاکستانی ویمن کرکٹ ٹیم 1997 میں انڈیا میں ہونے والے ورلڈ کپ کے لیے کوالی فائی کرگئی۔

شرمین نے اپنا پہلا ایک روزہ میچ نیوزی لینڈ کے خلاف کرائسٹ چرچ میں جنوری 1997 میں کھیلا۔ انہوں نے اپنا آخری ایک روزہ میچ سری لنکا کے خلاف موراتوا میں جنوری 2002 کو کھیلا۔

اپریل 1998 میں شرمین نے کولمبو میں سری لنکا کے خلاف اپنا پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا۔  دوسرا اور آخری ٹیسٹ میچ انہوں نے دو سال بعد ڈبلن میں آئرلینڈ کے خلاف کھیلا۔

سابق کھلاڑی شرمین خان نے پاکستان میں ویمن کرکٹ متعارف کرانے میں اہم کردار اداکیا۔


متعلقہ خبریں