دہری شہرت کا فیصلہ زلفی بخاری پر لاگو نہیں ہوتا، سپریم کورٹ

اسرائیلی کارڈ ناکام: بھارت کے بعد اسرائیلی لابی کا ایجنڈا بے نقاب

فائل: فوٹو


لاہور : سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس اعجاز الحسن ریمارکس دیے ہیں کہ سرکاری ملازمین کی دہری شہرت کا فیصلہ زلفی بخاری پر لاگو نہیں ہوتا۔

سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں وزیراعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری کی تعیناتی کیخلاف درخواست پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی اور فریقین عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی کے خلاف درخواست کو عدالت نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ زلفی بخاری اپنے عہدے پر کام کر سکتے ہیں۔

درخواست گزار عادل چٹھہ کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ زلفی بخاری کو وزیر مملکت کا عہدہ دیا گیا ہے اور سپریم کورٹ کے سرکاری ملازمین کی دہری شہریت سے متعلق فیصلہ بھی زلفی بخاری پر لاگو ہوتا ہے۔

بین کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ ہم نے اس فیصلے میں پابندی نہیں لگائی، آپ نے فیصلہ غور سے نہیں پڑھا، ہم نے پارلیمنٹ کو تجاویز دی ہیں۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ ہم  اوورسیز پاکستانیوں کی بہت قدر کرتے ہیں جیسے انہوں نے ڈیم فنڈ میں حصہ لیا، آپ کو زلفی بخاری کی تعیناتی کیخلاف رولز آف بزنس کو چیلنج کرنا چاہیے تھا۔

بینچ کے رکن جسٹس اعجاز الاحسن معاون خصوصی کی تعیناتی وزیراعظم کا اختیار ہے، زلفی بخاری آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی زد میں نہیں آتے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ معاون خصوصی کی تعیناتی کا فیصلہ وزیراعظم نے کرنا ہے، حکومت چلانا وزیراعظم کا کام ہے۔

استغاثہ نے اعتراض اٹھایا کہ زلفی بخاری بیرون ملکوں سے معاہدے کر رہا ہے، یہ کام وزیر کے ہیں۔

سپریم کورٹ کے سربراہ نے معاون خصوصی کے وکیل اعتزاز احسن سے استفسار کیا کہ زلفی بخاری کون ہے، کہاں سے آیا ہے۔

وکیل صفائی نے عدالت کو بتایا کہ زلفی بخاری نے وزیر مملکت کا سٹیٹس کلیم نہیں کیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ زلفی بخاری نے اپنی ویب سائٹ پر کیسے وزیر مملکت کا عہدہ لکھ دیا؟  انہوں نے کہا کہ زلفی بخاری کی اہلیت بتائیں، نئے پاکستان میں جید لوگ ہونے چاہئیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے وکیل استغاثہ سے استفسار کیا کہ اوورسیز پاکستانیز کیلئے معاون خصوصی کی کیا اہلیت ہونی چاہیئے ؟

وکیل درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ قانون نے اوورسیز پاکستانیوں کیلئے معاون خصوصی کی کوئی اہلیت مقرر نہیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اگر ایسا ہے تو پھر یہ وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار ہے۔

استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ زلفی بخاری بطور وزیر کام کر رہے ہیں اور کابینہ اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آپ کا اعتراض ہمیں سٹرائیک کر رہا ہے، ہم زلفی بخاری کو آپ کی استدعا کے مطابق نکال نہیں سکتے، پارلیمنٹ کو اس پر تجاویز دے سکتے ہیں۔

بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ اگر وزیر اعظم کا صوابدیدی اختیار ہے تو اسکا مطلب یہ نہیں کی وزیراعظم جس طرح مرضی کام کرے، مجھے وہ سمری دکھا دیں کیسے سمری وزیراعظم کو بھیجی گئی، کیسے زلفی بخاری معاون خصوصی بنے، زلفی بخاری کو کہاں سے منسٹر بنایا گیا، پوری سمری لائیں۔

وکیل صفائی نے عدالت کو بتایا کہ زلفی بخاری کی وجہ سے برٹش ایئر ویز پاکستان میں آئی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اچھا تو یہ ہوتا کہ آپ پی آئی اے کو بہتر بناتے۔


متعلقہ خبریں