سعودی کابینہ میں تبدیلی، وزیرخارجہ کی تنزلی


ریاض: سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے حکم پر کابینہ میں بڑے پیمانے پر ردوبدل کردیا گیا۔ شاہی فرمان کے مطابق کابینہ میں رد و بدل کے باوجود محمد بن سلمان کے سیاسی اور سیکیورٹی مناصب برقرار ہیں۔ وہ  بدستور ملک کے وزیر دفاع کے منصب پہ فائز رہیں گے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی نے جاری کردہ شاہی فرمان کے حوالے سے بتایا ہے کہ سابق وزیر خزانہ ابراہیم العساف کو وزارت خارجہ کی باگ دوڑ سونپ دی گئی ہے۔ وہ وزیر خارجہ عادل الجبیر کی جگہ سنبھالیں گے جب کہ عادل الجبیر کی تنزلی کرکے انہیں وزیر مملکت برائے خارجہ کا منصب سونپ دیا گیا ہے۔

ترکی الشبانہ کا تقرر بطور وزیر اطلاعات کیا گیا ہے جو اَواد الاَواد کی جگہ وزارت کا قلمدان سنبھا لیں گے۔ سبکدوش ہونے والے وزیراطلاعات کو شاہی عدالت کے مشیر کی نئی ذمہ داری تفویض کی گئی ہے۔

شاہ سلمان کے صاحبزادے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے قریبی ساتھی ترکی الشیخ کو سلطنت کے اسپورٹس کمیشن کی سربراہی سے ہٹا کر انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کا سربراہ مقررکردیا گیا ہے۔

عالمی خبررساں ایجنسی نے سعودی شاہی فرمان کے حوالے سے کہا ہے کہ عسیر کے گورنر فیصل بن خالد کو عہدے سے ہٹا کر ان کی جگہ ترکی بن طلال کو نیا گورنر مقرر کیا گیا ہے۔ اسی طرح صوبہ الجوف کے گورنر بدر بن سلطان کی جگہ فیصل بن نواف کو نیا گورنر نامزد کیا گیا ہے۔

عبداللہ بن بندر بن عبد العزيز کو نیشنل گارڈز کا وزیر مقرر کیا گیا ہے جب کہ کابینہ کے وزیر مساعد العیبان کو قومی سلامتی کا مشیر مقرر کیا گیا ہے۔ جنرل خالد بن کرار کو سعودی عرب کی جنرل سیکیورٹی کا نیا سربراہ تعینات کر دیا گیا ہے۔

شہزادہ محمد بن نواف بن عبدالعزیز کو برطانیہ میں سفارتکاری کے منصب سے سبکدوش کرکے خادم الحرمین الشریفین کا مشیر مقرر کیا گیا ہے۔

شہزادہ سلطان بن سلمان بن عبدالعزیز کو سعودی بورڈ برائے فضائی علوم کے کونسل کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے۔اسی طرح ترکی آل الشیخ کو اسپورٹس اتھارٹی کے منصب سے سبکدوش کر دیا گیا ہے۔

سعودی عرب کی کابینہ میں بڑے پیمانے پر رد و بدل اس وقت سامنے آیا ہے جب سلطنت کو سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر تنقید کا سامنا ہے۔

استنبول کے سعودی قونصل خانے میں جمال خاشقجی کے قتل کا واقع پیش آیا تھا جس پر امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے سعودی عرب کو نکتہ چینی کا نشانہ بنایا گیا۔

اس ضمن میں تاحال چہ میگوئیوں کا سلسلہ جاری ہے کیونکہ ترکی چند ایسے افراد کی حوالگی کا مطالبہ کررہا ہے جن کے قتل میں ملوث ہونے کا شبہ ہے جب کہ ریاض نے واضح کردیا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو کسی بھی دوسرے ملک کے حوالے نہیں کرے گا۔

سعودی عرب کی جانب سے یہ دو ٹوک مؤقف سامنے آیا ہے کہ وہ ملزمان پر انپی عدالت میں اپنے قانون کے تحت مقدمہ چلائے گا۔

سعودی ولی عہد کے ناقد صحافی کے قتل میں محمد بن سلمان کے ملوث ہونے کے الزامات بھی سامنے آئے، جنہیں سعودی حکومت نے یکسر مسترد کیا۔


متعلقہ خبریں