ڈاکٹر سلیم اختر نے داعی اجل کو لبیک کہہ دیا،تدفین کل ہوگی


لاہور: ممتاز افسانہ نگار، نقاد اور ماہرلسانیات ڈاکٹر سلیم اختر انتقال کرگئے۔ ان کی عمر 85 برس تھی۔ انہوں نے اپنی زندگی میں 90 سے زائد کتب تخلیق کیں اور سینکڑوں مضامین تحریر کیے۔

ہم نیوز کے مطابق درس و تدریس کے شعبے سے بھی منسلک رہنے والے ڈاکٹر سلیم اخترنے بطور خاص فکر اقبالؒ اور نفسیات پر شاندار کتب لکھیں جنہیں اندرون و بیرون ملک بے حد پذیرائی حاصل ہوئی۔

اردو ادب کی مختصر تاریخ، ادب اور کلچر، کڑوے بادام اور رات کی مخلوق جیسی شہرہ آفاق کتب کے خالق ڈاکٹر سلیم اختر کو ادبی حلقوں میں ماہر لسانیات اور ممتاز نقاد کی حیثیت بھی حاصل تھی۔

مرحوم کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں پرائڈ آف پرفارمنس سمیت کئی دیگراعزازات سے بھی نوازا گیا تھا۔

ہم نیوز نے ڈاکٹر سلئم اختر کے خاندانی ذرائع سے بتایا ہے کہ مرحوم کی نماز جنازہ کل صبح (بروز پیر) دس بجے ان کی رہائش گاہ جہانزیب بلاک میں ادا کی جائے گی۔

ڈاکٹر سلیم اختر کی زندگی پر ایک نظر 

ڈاکٹر سلیم اخترگیارہ مارچ 1934 کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد قاضی عبدالحمید ملٹری اکاؤنٹس میں ملازم تھے۔ اس لئے جہاں جہاں ان کا تبادلہ ہوتا رہا وہ بچوں کو اپنے بھی ہمراہ لے جاتے رہے۔

قیام پاکستان کے وقت ان کے والد قاضی عبدالحمید اہل خانہ کے ہمراہ انبالہ میں مقیم تھے۔ سلیم اختر کو انبالہ، پونہ‘،لاہور،فورٹ سنڈے مین،اور راولپنڈی میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع حاصل ہوئے۔

فیض الاسلام ہائی اسکول راولپنڈی سے میٹرک کرنے کے بعد آپ نے گریجویشن گورنمنٹ ڈگری کالج لوئر مال راولپنڈی سے کی۔ انہوں نے بطور اردو لیکچرار پہلی ملازمت گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان میں کی۔

آٹھ سال تک ملازمت کرنے کے بعد وہ گورنمنٹ کالج لاہور آگئے اور پھر1994ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آئندہ گیارہ سال تک بحیثیت وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر پڑھانے جاتے رہے۔

ڈاکٹر سلیم اختر نے یونیورسٹی آف ایجوکیشن میں بھی تقریباً دو سال درس وتدریس کے فرائض سر انجام دیے۔

ڈاکٹر سلیم اختر کا شمار اردو کے ان چند نقادوں میں ہوتا ہے جو صرف نقاد نہیں ہیں بلکہ خود بہترین تخلیق کار ہیں۔

ان کا کمال یہ ہے کہ بحیثیت نقاد، بحیثیت افسانہ نگار اور بحیثیت استاد تینوں مراحل بخوبی انجام دیے۔ یہ بھی انھی کا خاصہ تھا کہ ہر میدان میں ان کی خدمات کا اعتراف اپنوں سمیت پرایوں نے بھی کیا۔

’اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ‘

اردو ادب کی اب تک کی لکھی گئی تاریخ میں ایک بہترین مستند حوالہ تسلیم کی جاتی ہے۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہورسمیت دیگر تعلیمی اداروں میں بحیثیت مدرس فرائض سرانجام دیتے رہے۔

ڈاکٹر سلیم اختر مسلسل 23 سال اردو ادب کے سالانہ جائزے لکھے۔ اس ضمن میں ان کی ستائش ہوئی تو دشنام طرازیاں بھی کی جاتی رہیں۔

ان کی خودنوشت سوانح حیات ’نشان جگر سوختہ‘ کے نام سے منظرعام پر آئی تو اسے بے حد پذیرائی ملی۔

ڈاکٹر سلیم اختر کی دیگر نمایاں کتب میں افسانہ حقیت سے علامت تک‘ اقبال کا نفسیاتی مطالعہ‘ ادب اور کلچر‘ مجموعہ تحقیق، مٹھی بھر سانپ، چالیس منٹ کی عورت، کاٹھ کی عورتیں، ضبط کی دیوار،عورت جنس اور جذبات‘ ہماری جنسی اور جذباتی الجھنیں اور خودشناسی شامل ہیں۔

احمد ندیم قاسمی سے قریبی تعلق کے باعث انہیں قاسمی گروپ کا تنقیدی ترجمان بھی قرار دیا جاتا رہا ہے۔


متعلقہ خبریں