اسلام آباد: سپریم کورٹ نے کابینہ کو نام ای سی ایل میں شامل کرنے کے معاملے پر نظر ثانی کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت ہوئی۔ بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض،زین ملک، جے آئی ٹی کے سربراہ احسان صادق، ڈی جی ایف آئی اے سمیت پیپلزپارٹی کے رہنما سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس پاکستان کے فوری طلب کیے جانے پر وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی سپریم کورٹ پہنچے۔
اٹارنی جنرل پاکستان نے مؤقف اختیار کیا کہ 172 افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے جے آئی ٹی سربراہ نے حکومت سے رجوع کیا تھا اور 26 دسمبر کو جے آئی ٹی سربراہ احسان صادق نے خط لکھا اور اسی خط کی بنیاد پر نام ای سی ایل میں ڈالے گئے۔
چیف جسٹس نے جے آئی ٹی سربراہی سے استفسار کیا کہ کیا ہم نے کہا تھا کہ نام ای سی ایل میں ڈلوائیں ؟ ہم نے تو نہیں کہا،یہ سب بحران آپ کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ آپ نے اپنے خط میں یہ تاثر دیا کہ ای سی ایل میں نام عدالتی حکم پر ڈالے جا رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ وفاقی کابینہ نے خط میں وجوہات کا جائزہ لیا تھا اور وجوہات کے جائزے کے بعد ہی نام ای سی ایل میں ڈالے گئے۔
جے آئی ٹی سربراہ کا کہنا تھا کہ ملزمان سے متعلق حکومت کو آگاہ کرنا اخلاقی فرض تھا۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ مجھے حیرت ہوئی آپ نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں172 لوگوں کے نام کیوں ڈال دیے ہیں۔ اٹارنی جنرل آپ نے دوسرے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ کا نام بھی ای سی ایل میں ڈال دیا۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کل تو آپ چیئرمین نیب کا نام بھی ای سی ایل میں ڈال کر کہیں گے کام کرتے رہیں۔ تو پھر میں کیا اٹارنی جنرل کا نام ای سی ایل میں ڈال دوں ؟ کیا ای سی ایل میں نام ڈالنا اتنی معمولی بات ہے ؟جس وزیر نے ای سی ایل میں نام ڈالے اس کو 15 منٹ میں عدالت بلائیں اور کہیں کہ سمری بھی ساتھ لے کر آئیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ میڈیا نے لوگوں کو قصور وار ٹھرا کر ٹرائل بھی شروع کر دیا ہے جب کہ ابھی تو کچھ ہوا بھی نہیں۔
چیف جسٹس نے ڈی جی پیمرا کو بھی فوری عدالت میں طلب کر لیا جب کہ لطیف کھوسہ کی جعلی آڈیو وائرل ہونے کا بھی نوٹس لیتے ہوئے ایف آئی اے کو جعلی آڈیو کال کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں ای سی ایل میں نام ڈالنے کی مکمل تفصیلات دی جائیں، کابینہ اور وکلا جے آئی ٹی رپورٹ پر تبصرے کر رہے ہیں جب کہ کابینہ کا اس سارے معاملے پر کیا تعلق ہے۔
وکیل شاہد حامد نے مؤقف اختیار کیا کہ کابینہ نے سوچے سمجھے بغیر ان تمام افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی منظوری دی۔
چیف جسٹس نے چیئرمین پیمرا سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے ہمراے فیصلے پڑھے ہیں ؟ ہم نے تو آپ کو تگڑا بندہ سمجھ کر چیئرمین منتخب کیا تھا لیکن آپ تو ٹھس نکلے۔
چیئرمین پیمرا نے مؤقف اختیار کیا کہ 20 دسمبر تک تمام ٹی وی چینلز کو عدالتی حکم کے نکات بھیج دیے گئے تھے۔ ہم نے خلاف ورزی کرنے والے چینلز کو شوکاز نوٹسز جاری کیے ہیں۔
چیف جسٹس نے چیئرمین پیمرا کو نجی ٹی وی چینل کے دو پروگراموں کا جائزہ لینے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے ای سی ایل میں نام ڈالنے کی سمری اور تمام ریکارڈ طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی کے مطابق تحقیقات اور سفارشات بدنیتی پر مبنی نہیں ہیں جب کہ جے آئی ٹی کے مطابق بعض عبوری نوعیت کی سفارشات تھیں تاہم کسی کی گرفتاری یا نااہلی کی سفارش نہیں کی گئی تھی۔ جے آئی ٹی رپورٹ کا جائزہ لے کر حتمی فیصلہ عدالت کرے گی۔
آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کیس میں پیش ہونے سے معذرت کی لیکن عدالت نے فاروق ایچ نائیک کی استدعا مسترد کر دی۔ وکیل لطیف کھوسہ نے مؤقف اختیار کیا کہ فاروق ایچ نائیک مقدمے میں آصف زرداری کے وکیل تھے لیکن جے آئی ٹی نے فاروق ایچ نائیک کو بھی ملزم بنا دیا ہے۔
لطیف کھوسہ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر فاروق ایچ نائیک نے آصف زرداری اور فریال تالپور کی وکالت سے معذرت کی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فاروق ایچ نائیک کو عدالت میں پیش ہونے سے کون روک سکتا ہے۔
سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کی فاروق ایچ نائیک سے متعلق سفارشات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے فاروق ایچ نائیک کی مقدمہ سے الگ ہونے کی استدعا مسترد کر دی اور آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی وکالت جاری رکھنے کا حکم دے دیا۔
عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ ملک ریاض اور زین ملک کمرہ عدالت میں موجود ہیں جب کہ اومنی گروپ کے انور مجید اور عبدالغنی مجید کا جواب آچکا ہے۔
جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ دونوں کی جانب سے مفصل جواب نہیں آیا ہے جب کہ تمام دستاویزات ریکارڈ پر موجود ہیں۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اومنی گروپ تمام متعلقہ ریکارڈ مانگ رہا ہے جب کہ جو دستاویزات درکار تھیں وہ انہیں فراہم کر دی گئی ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے انور مجید اور عبدالغنی مجید کا جیل میں ہی رہنے کا دل کر رہا ہے۔ مجھے 15 جنوری سے قبل سارے کام کر کے جانا ہے۔
ملک ریاض نے مؤقف اختیار کیا کہ میری جائیداد اور علی ریاض کا گھر سمیت جو چاہے لے لیں۔ شکر کریں پاکستان میں 70 منزلہ عمارت بنی ہے۔ جس کی زمین میں نے ڈاکٹر ڈنشا سے خریدی تھی۔ ہم سارے مدعا ختم کرنا چاہتے ہیں۔ میں سب کچھ سیٹل کرنا چاہتا ہوں آپ صرف حکم کریں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ تو ملک کو چلا رہے ہیں۔ اس ملک کا مال واپس کریں۔ آپ کو زندگی گزارنے کے لئے کتنے ارب چاہیں وہ لے لیں باقی دے دیں۔ میں نے ایک ہزار ارب روپے مانگے تھے وہ دے دیں۔
جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی۔
عدالت نے بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض اور زین ملک کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا ہے جب کہ جعلی بینک اکاؤنٹ کیس میں زین ملک اور اومنی گروپ اپنا جواب ہفتے کے روز جمع کرا چکے ہیں۔ آصف زرداری اور فریال تالپور کی جانب سے تاحال جواب جمع نہیں کرایا اُن کے وکیل سردار لطیف کھوسہ آج عدالت کے سامنے جواب جمع کرائیں گے یا مزید وقت لیں گے۔