امریکہ اور اسرائیل کی یونیسکو سے علیحدگی


اسلام آباد: امریکہ اوراسرائیل نے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ایجوکیشنل، سائنٹیفک اینڈ کلچرل آرگنائزیشن (یونیسکو) سے علیحدگی اختیار کرلی ہے۔ دونوں ممالک نے یونیسکو کی رکنیت سے دستبرداری اختیار کرلی ہے۔

عالمی خبررساں اداروں کے مطابق امریکہ یونیسکو کا شریک بانی ہے لیکن اب جب کہ وہ رکنیت سے بھی  دستبردار ہوگیا ہے تو یقیناً ادارے کو ’نقصان‘ پہنچ سکتا ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اکتوبر 2017 میں یونیسکو سے علیحدگی اختیارکرنے کا نوٹس دیا تھا۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے بھی ان کے تقش قدم پر چلتے ہوئے علیحدگی اختیار کرنے کا راستہ اپنایا تھا۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو پر ایک سال قبل اسرائیل مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ یونیسکو نے مشرقی یروشلم پر اسرائیلی قبضے کو سخت نکتہ چینی کا نشانہ بناتے ہوئے فلسطین کو رکنیت دے دی تھی۔

یونیسکو کی جانب سے اس وقت امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے عائد کردہ ان الزامات کو خاطرمیں نہیں لایا گیا تھا جن میں اس پر جانبداری کا الزام لگایا گیا تھا۔

دنیا میں یونیسکو اس لحاظ سے نہایت اہمیت کا حامل گردانا جاتا ہے کہ وہ تاریخی ورثے اور روایات کا تحفظ کرتا ہے۔ یونیسکو لڑکیوں کی تعلیم اور ذرائع ابلاغ کی آزادی سمیت دیگر اہم سماجی امور میں بھی خدمات انجام دیتا ہے۔

عالمی خبررساں ایجنسیوں کے مطابق امریکہ پر اس وقت یونیسکو کے 600 ملین ڈالرز واجب الادا ہیں جب کہ اسرائیل پرایک کروڑ ڈالرز بقایا ہیں۔

اپریل 2019 میں جب یونیسکو کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس منعقد ہو گا تو امریکہ اپنی رکنیت کے فیصلے پر نظرثانی کرسکتا ہے کیونکہ وہ ایسا کرنے کا مجاز ہے۔

امریکا 1984 میں بھی رونا لڈ ریگن کے دور صدارت میں یونیسکو کی رکنیت سے دستبردار ہوا تھا۔ اس وقت اس کی جانب سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ ادارے میں انتظامی امور درست نہیں ہیں۔

سابق صدر رونالڈ ریگن کے وقت میں یونیسکو پر کرپشن کے بھی الزامات عائد کیے گئے تھے اور کہا جارہا تھا کہ وہ سوویت یونین کے مفادات کو وسعت دے رہا ہے۔

سوویت یونین کے وقت میں سرد جنگ عروج پر تھی اوردنیا تقریباً دو سپر پاورز کے درمیان بٹی ہوئی تھی۔ یہ سلسلہ اس وقت ختم ہوا جب سوویت یونین میخائل گوربا چوف کے دور میں ٹکرے ٹکڑے ہوکر صرف ’روس‘ رہ گیا اور متعدد نئے ممالک (وسط ایشیائی ریاستیں) وجود میں آگئے۔

امریکہ اس کے بعد 2003 میں ایک مرتبہ پھر یونیسکو کا حصہ بنا تھا۔

امریکہ اوراسرائیل کی یونیسکو سے علیحدگی باضابطہ طور پر طریقہ کار کے تحت ہوئی ہے اور یہ عمل تقریباً ایک سال میں مکمل ہوا ہے۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو سے امریکہ اور اسرائیل کی علیحدگی پر واشنگٹن کی جانب سے فی الوقت کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے لیکن اس سے قبل عالمی ذرائع ابلاغ میں یہ خبر آئی تھی کہ امریکہ نے یونیسکو کے عہدیداروں سے کہا تھا کہ وہ غیر رکن ملک کی حیثیت سے ادارے کے لیے کام کرنا چاہتا ہے۔


متعلقہ خبریں