نیب کے 90 روزہ ریمانڈ کے خلاف آواز اٹھائیں گے، شہباز شریف

فوٹو: فائل


اسلام آباد: قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے 90 روزہ ریمانڈ کے خلاف پارلیمنٹ میں آواز اٹھائیں گے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس کمیٹی انچارج ریاض فتیانہ کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور مسلم لیگ نون کے اسیر رہنما خواجہ سعد رفیق بھی موجود تھے، دونوں رہنما اجلاس کے دوران ساتھ بیٹھے تھے۔

وزارت قانون و انصاف کے حکام نے کمیٹی کو کارکردگی کے حوالے سے بریفنگ دی جب کہ کمیٹی روم میں نئے سال کی خوشی کا کیک بھی کاٹا گیا اور چیئرمین کمیٹی نے تمام اراکین کو پھول پیش کیے۔

کمیٹی نے خصوصی عدالتوں سے متعلق تمام تفصیلات طلب کر لیں جب کہ وزارت کو اہم مقدمات کے عدالتی فیصلوں سے متعلق ویب سائٹ قائم کرنے کا بھی حکم دیا گیا۔ کمیٹی نے فیڈرل ٹرائبیونل میں زیرالتوا مقدمات کی تفصیلات بھی طلب کر لیں۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ وکلاء بارز کونسلز سے متعلق بھی بریفنگ دیں کیونکہ جب تک اس ملک میں جوڈیشری اور پولیس ٹھیک نہیں ہوگی ملک ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ میں ایک دو ریٹائرڈ ججز کو جانتا ہوں کہ وہ اپنا فیصلہ بھی نہیں لکھ سکتے تھے۔ ججز کی تقرریوں کے متعلق بھی بریفنگ دی جائے۔

اس موقع پر مسلم لیگ نون پاکستان کے صدر شہباز شریف نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر قتل کیس میں 14 دن کا ریمانڈ ہو سکتا ہے تو نیب کے کیس میں کیوں نہیں۔ نیب کا نوے روزہ ریمانڈ بالکل نہیں ہونا چاہیے۔

شہباز شریف نے نیب کے 90 روزہ ریمانڈ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نیب کے 90 دن کے ریمانڈ کے شق کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کے خلاف قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس میں بات کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ نیب کا 90 روزہ ریمانڈ ایک ڈریکونئین لا ہے اور اس ریمانڈ کے قانون کو تبدیل ہونا چاہیے۔

خواجہ سعد رفیق نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کیا کسی کو دباؤ پر احتساب کے نام پر گرفتار کرنا کرائم نہیں ہے اور احتساب کے نام پر یہ کرائم برسوں سے جاری ہے۔

مسلم لیگ نون میں فارورڈ بلاک کے سوال پر خواجہ سعد رفیق نے بڑے پراعتماد لہجہ میں کہا کہ چوہدری نثار علی خان کسی صورت فارورڈ بلاک نہیں بنائیں گے۔

مسلم لیگی رہنما نے کہا کہ وزارت قانون و انصاف کا بجٹ کم نہیں ہونا چاہیے، وزیر قانون فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی طرح ہے کیونکہ اس پر کام کا بہت دباؤ ہوتا ہے۔

خواجہ سعد رفیق نے تجویز دی کہ لیگل ایڈوائزرز اور سرکاری وکلاء کی فیس بڑھائی جائے اور شفاف انداز سے قانونی ٹیم رکھی جائے جب کہ کئی وزارتوں کے مقدمات اس لیے زیر التواء میں ہیں کہ لاء افیسرز اہل ہی نہیں ہیں۔

حکام وزارت قانون و انصاف نے کہا کہ احتساب کے قانون میں ترامیم سے متعلق چار اجلاس کیے گئے ہیں اور احتساب کے محکموں کی جانب سے اختیارات سے تجاوز کو روکنے کے لیے اقدامات کریں گے۔

رانا ثنا اللہ نے استفسار کیا کہ اس قانون میں ترمیم کا مسودہ تیار کرنے میں کتنا وقت لگے گا تو وزارت حکام نے آگاہ کیا کہ ایک سے دو ماہ لگ جائیں گے۔

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ 45 دن لے لیں لیکن تین ماہ نہیں لگنے چاہیئیں اور فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے متعلق کیا کیا ؟

جس پر حکام کی جانب سے جواب دیا گیا کہ فوجی عدالتوں کی توسیع کا معاملہ وزارت داخلہ کا ہے جب کہ وزارت قانون میں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع سے متعلق کوئی تجویز نہیں آئی ہے۔

اجلاس کے دوران حکومتی رکن ثناء اللہ مستی خیل نے ایڈیشنل، ڈپٹی اور اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کے تقرر کے طریقہ کار پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بتایا جائے ان وکلاء کو کیسے رکھا جاتا ہے جب کہ ان وکلاء کی قابلیت یہ ہے کہ لاکھوں مقدمات کے فیصلے نہیں ہو سکے ہیں۔

وزارت قانون نے جواب دیا کہ طے شدہ طریقہ کار اور اٹارنی جنرل کی مشاورت سے وکلاء کا تقرر کیا جاتا ہے جب کہ وزارت میں 126 اسامیوں کو چند ماہ میں پر کرلیا جائے گا۔ گریڈ ایک سے 16 کی پوسٹیں چھ ماہ سے خالی ہیں اور ان اسامیوں پر بھرتی کے لیے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے این او سی کا انتظار ہے۔

شہباز شریف اور خواجہ سعد رفیق کرپشن کے مقدمات میں جیل میں ہیں اور دونوں رہنماؤں کو پروڈکشن آرڈر کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی اجازت دی گئی۔


متعلقہ خبریں