چین نے خلائی تاریخ کا نیا باب رقم کردیا


اسلام آباد: 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں جب روس اور امریکہ کے درمیان چاند پر پہنچنے اور وہاں کے متعلق معلومات حاصل کرنے کی جو دوڑ شروع  ہوئی تھی وہ گزشتہ دہائیوں میں تھم سی گئی ہے لیکن انسانی تجسس ’چندا ماما‘ کے لیے تاحال پوری شدت سے برقرار ہے۔

چاند کے متعلق انسانی جستجو نے ایک نئی ’جہت‘ اس وقت دریافت کی جب جمعرات کو پوری دنیا ایک مرتبہ پھر پوری شدت اور توجہ سے ’چندا ماموں‘ کی طرف متوجہ ہوئی کیونکہ چین کے خلائی جہاز ’چنگ ای – 4‘ نے چاند کے ’تاریک حصے‘ کی تصاویر زمین پر بھیجیں۔

انسانی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ جب کسی خلائی جہاز نے اس حصے پہ لینڈنگ کی ہے جسے ’ڈارک سائیڈ‘ قرار دیا جاتا ہے اورجو زمین سے کبھی بھی نظر نہیں آتا ہے۔ چین کے سائنسدانوں نے اسے ’خلائی تاریخ‘ کا ایک نیا باب قرار دیا ہے۔

یہ بات تاریخی اہمیت کی حامل ہے کہ اپالو کی لینڈنگ کے تقریباً 50 سال بعد چین کے خلائی جہاز نے چاند پر لینڈنگ کی ہے۔

عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق چینی خلائی جہاز چنگ ای – 4 ایک خود کار گاڑی (Rover) کو لے کر گیا ہے۔ اس مشن کا بنیادی مقصد چاند کے ان اجبنی حصوں کا معائنہ کرنا ہے جو اب تک انسانی دسترس سے ’محفوظ‘ رہے ہیں۔ چین کے سائنسدان اس مشن کے ذریعے چاند کی مٹی کا بھی تجزیہ اور معائنہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

چین کے سائنسدانوں کے عزائم کے متعلق برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ چینی سائنسدان چاند پر آلو اگانے کا تجربہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

پاکستانی وقت کے مطابق جمعرات کی صبح دس بجے کے قریب جب چین کے خالی جہاز نے چاند کی ڈارک سائیڈ پر لینڈنگ کی تو اس نے پہلے ایک تصویر زمین پر بھیجی اور کچھ ہی دیر بعد دو مزید تصاویر زمین پر بھیج دیں۔

چین نے 2013 میں اپنا پہلا خلائی جہاز چنگ ای-3 چاند پر بھیجا تھا جب کہ چنگ ای-4 آٹھ دسمبر کو زمین سے چاند کے سفر پر روانہ ہوا تھا۔ چاند کے سفر پر بھیجے گئے خلائی جہاز کا زمین سے رابطہ برقرار رکھنے کے لیے مئی میں ایک سیٹیلائٹ بھی بھیجا گیا تھا۔

سیٹیلائٹ کے متعلق سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ چاند کی ڈارک سائیڈ سے سگنلز براہ راست زمین پر نہیں پہنچ پاتے ہیں اس لیے سیٹیلائٹ کی ضرورت پیش آئی تھی جو خلائی جہاز کے سگنلز وصول کرکے انہیں زمین پر بھیجنے کا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔

سائنسدان ’تاریک حصے‘ کے متعلق کہتے ہیں کہ بیشک! چاند زمین کے گرد گھومتا ہے لیکن تیکنیکی اعتبار اس کا صرف ایک ہی حصہ زمین کے باسیوں کو دکھائی دیتا ہے اور دوسرا حصہ ہمیشہ ہی انسانی نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے۔ اسی اوجھل رہنے والے حصے کو ڈارک سائیڈ کہا جاتا ہے جو عقبی حصہ بھی کہلاتا ہے۔

سائنسی اعتبار سے جب زمین چاند کی چاندنی سے محروم ہوتی ہے تو یہ وہی وقت ہوتا ہے کہ جب سورج کی کرنیں اس حصے کو منور کررہی ہوتی ہیں جو تاریک حصہ کہلا تا ہے مگر زمین سے اس کا نظارہ ممکن نہیں ہوتا ہے۔

خبررساں اداروں کے مطابق چین آئندہ سال اپنا ایک اور خلائی مشن چنگ ای – 5 چاند پر بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے جو خلائی جہاز سے وہ چیزیں بھی زمین پر لائے گا جنہیں ایک سال کے دوران چاند سے جمع کیا جائے گا۔

عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق چاند کی جمعرات کے دن جو تین تصاویر زمین پر موصول ہوئی ہیں ان میں سے ایک اس وقت کی ہے جب خلائی جہاز چاند کی زمین پر اترچکا تھا۔

دو دیگر تصاویر کے متعلق چینی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ چاند کی سطح پر اترنے سے قبل کی ہیں۔

امریکی خلائی جہاز اپالو 16 نے بھی چاند کے تاریک حصے کا جائزہ لیا تھا اور تصویربھی بنائی تھی لیکن سائسدانوں کی غالب اکثریت یقین رکھتی ہے کہ اپالو سے قبل روسی خلائی جہاز لونا تھری نے ڈارک سائیڈ کی تصویر بنائی تھی۔ اس وقت جوتصاویر لی گئی تھیں اس میں واضح ہے کہ چاند کی زمین پر بڑے بڑے گڑھے ہیں۔

عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق چینی خلائی ادارے نے اپنے مشن کے حوالے سے دیگر ممالک کے سائنسدانوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی پیشکش کی ہے۔

چینی خلائی ادارے کا کہنا ہے کہ سائسندانوں کے خیال میں چاند کا عقبی حصہ زیادہ قدیم ہے اور اس کے مطالعے سے چاند کی تاریخ معلوم کرنے میں مدد ملے گی۔


متعلقہ خبریں