جعلی بینک اکاؤٹس کیس، سپریم کورٹ نے معاملہ نیب کو بھجوا دیا

فوٹو: فائل


اسلام آباد: سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کا معاملہ قومی احتساب بیورو کو بھجوا دیا۔ اومنی گروپ کے خلاف اتنا مواد ہے کہ آنکھیں بند نہیں کر سکتے ہیں۔

سپریم کورٹ میں جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں ہوئی۔ سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کا معاملہ نیب کو دو ماہ میں مکمل کرنے کا حکم دیا اور جے آئی ٹی کو اس دوران اپنا کام مکمل کرنے کی ہدایت کی۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ ہمیں مجبور نہ کریں کہ ہم عملدر آمد بینچ آج ہی بلائیں اور حکم دیں کہ ملک ریاض کو گرفتار کریں۔ ایک بڑے آدمی کو بچانے کے لئے ساری ٹیم آ جاتی ہے اور ایسے کہتے ہیں کہ جیسے ملک ریاض معصوم ہو۔

رپورٹ سے متعلق انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ کو مزید تفتیش کر کے قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھیج دیتے ہیں پھر یہ لوگ نیب کے پاس ہی جائیں۔ ہم نے جے آئی ٹی کی رپورٹ پر جواب مانگا ہے اور ہم نے جوابوں پر ہی حکم دیںا ہے۔

جعلی بینک اکاؤنٹس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اومنی گروپ کا سیاستدانوں اور نجی پراپرٹی ٹائیکون سے گٹھ جوڑ دیکھنا ہے۔ ایسا مکسر کیا ہے کہ اس کی لسی بن گئی ہے۔ کیا اوپر سے فرشتے آکر جعلی بینک اکاؤنٹس کھول گئے ہیں۔ ہمیں مطمئن ہونا ہے کہ اومنی گروپ کا سیاستدانوں اور بحریہ ٹاؤن سے گٹھ جوڑ ہے یا نہیں۔

اومنی گروپ کے وکیل منیر بھٹی نے عدالت سے اجازت طلب کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ عدالت کو دیا گیا تاثر درست نہیں ہے۔ اومنی گروپ نے شوگر ملیں قانونی  طریقہ کار کے مطابق خریدیں اور یہ غلط ہے کہ اومنی کا سندھ حکومت اور بحریہ سے کوئی گٹھ جوڑ ہے۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ یہ تفتیشی رپورٹ ہے اس پر فریقین کا جواب دیکھنا ہے۔ اصل مسئلے سے ہٹ کر ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) پر توجہ مرکوز نہ کریں۔ وکیلوں نے قسم کھائی ہے کہ اصل مقدمے کو چلنے نہیں دینا جب کہ اعتراض یہ ہے کہ جے آئی ٹی نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا۔

منیر بھٹی نے مؤقف اختیار کیا کہ جے آئی ٹی نیب کو ریفرنس دائر کرنے کی سفارش نہیں کر سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جے آئی ٹی کی سفارش پر اعتراض ہے تو ہم معاملہ نیب کو بھیج دیتے ہیں۔ انہوں نے کیسے سندھ اور سمٹ بینک بنا لیے ہیں اور اب ان کو ضم کر رہے ہیں تاکہ معاملے پر مٹی ڈال دی جائے۔

انور مجید کے وکیل شاہد حامد نے مؤقف اختیار کیا کہ انور مجید اور عبد الغنی مجید اگست سے گرفتار ہیں اور عدالت سے استدعا ہے کہ ٹرائل جلد مکمل کیا جائے جب کہ ایف آئی اے عبوری چلان جمع کرا چکا ہے۔ جس کے بعد جے آئی ٹی بنانے کی استدعا کی گئی۔

شاہد حامد نے کہا کہ جعلی اکاؤنٹس کی تحقیقات میں سست روی پر ازخود نوٹس لیا گیا تھا اور اب سست روی ختم ہونے کے بعد ازخودنوٹس بھی ختم ہو جانا چاہیے۔ مقدمہ ایف آئی اے کا ہے اسے ہی فیصلہ کرنے دیا جائے۔

انور مجید کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ جے آئی ٹی میں نہ آنے والی اومنی گروپ کی کمپنیوں کو چلنے دیا جائے۔ ہماری آٹھ شوگر ملزم ہیں اور جے آئی ٹی نے 12 بنادی ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اومنی گروپ نے بندر بانٹ سے تمام جائدادیں اور کمپنیاں بنائیں اور اربوں روپے کی چینی رہن رکھوائے بغیر ہی اربوں روپے قرض لیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جنہوں نے کبھی 50 ہزار روپے نہیں دیکھے ان کے اکاؤنٹ میں آٹھ آٹھ کروڑ روپے کہاں سے آ رہے ہیں۔ ہم اس کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ نامزد ملزمان تفتیش کاروں کے سامنے پیش ہو کر اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کر دیں۔


متعلقہ خبریں