نقیب اللہ قتل کیس، ملزمان کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ

فوٹو: فائل


کراچی: کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس کے دس ملزمان کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت ہوئی۔ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت دیگر ملزمان عدالت میں پیش ہوئے۔

مقدمہ میں دس ملزمان کی درخواست ضمانت پر فریقین کی جانب سے دلائل مکمل کر لیے گئے جس کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔  ملزمان  میں نقیب اللہ کو گرفتار کرنے والا پولیس اہلکار اکبر ملاح بھی شامل ہے۔

عدالت کی جانب سے ملزمان کی درخواست ضمانت پر فیصلہ 16 جنوری کو سنایا جائے گا جب کہ نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت 30 جنوری تک ملتوی کر دی گئی ہے۔

نقیب اللہ قتل کیس

نقیب اللہ کو رواں سال 13 جنوری کو مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کردیا گیا تھا، نسیم اللہ عرف نقیب اللہ کی نعش کی شناخت 17 جنوری کو ہوئی تھی، مبینہ پولیس مقابلے کے بعد سابق ایس ایس پی راؤ انوار نے نقیب اللہ  کو تحریک طالبان کا کمانڈر ظاہر کیا تھا۔

نقیب اللہ کی ہلاکت کے بعد سوشل میڈیا میں پولیس مقابلے کے خلاف سول سوسائٹی نے آواز اٹھائی اور پولیس کے اقدام  کو ماورائے عدالت قتل قرار دیا۔

سوشل میڈیا میں اٹھنے والی آوازوں کے نتیجے میں آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے نوٹس لیا، انہوں نے واقعہ کی تحقیقات کے لیے ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثنا اللہ عباسی کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی بنائی جس نے تحقیقات کے بعد نقیب اللہ محسود کو بے قصوراوراس کی ہلاکت کو ماورائے عدالت قتل کا نتیجہ قرار دیا۔

کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں 20 جنوری کو راؤ انوار اور ان کی ٹیم کو معطل کردیا گیا۔

سپریم کورٹ نے بھی راؤ انوار کے قتل کا ازخود نوٹس لیا جس کے بعد راؤانوار اپنی پولیس ٹیم کے ہمراہ  روپوش ہو گئے،  سابق ایس ایس پی سپریم کورٹ کی طلبی کے باوجود عدالت عظمیٰ میں پیش نہیں ہوئے، سندھ پولیس بھی عدالتی احکامات کے باوجود ان کی گرفتاری میں یکسر ناکام ثابت ہوئی۔

دو ماہ تک مفرور رہنے کے بعد 21 مارچ کو راؤ انوار خود سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تو انہیں عدالتی حکم  پر عدالت  کے احاطے سے گرفتار کر کے کراچی پہنچا یا گیا۔

کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے  10 جولائی کو  محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے راؤ انوار کی ضمانت منظور کر لی تھی۔


متعلقہ خبریں