گوجرانوالہ انسانی اسمگلنگ میں پہلے نمبر پر، نو افراد جان گنوا بیٹھے

فائل فوٹو


گوجرانوالہ: سال 2018 میں بھی گوجرانوالہ ریجن انسانی اسمگلنگ میں پہلے نمبر پر رہا۔ گذشتہ سال 30 ہزار سے زائد افراد نے غیر قانونی طریقے سے بیرون ممالک جانے  کوشش کی۔ جن میں نو افراد جان س ہاتھ دھو بیٹھے۔

انسانی اسمگلر سنہرے خواب کا جھانسہ دے کر یورپ جانے کے خواہش مند افراد کو موت کے منہ میں لے جاتے ہیں۔ بیرون ملک جانے کے خواہش مند افراد غیر قانونی طریقے سے بھی بیرون ملک جانے کو تیار ہو جاتے ہیں اور اکثر افراد مشکل ترین اور جان لیوا غیر قانونی طریقہ ڈنکی اختیار کرتے ہیں۔

عالمی اسمگلروں نے پاکستان میں ویزا اسٹیکرز متعارف کرا رکھے ہیں جو اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے میں فروخت کرتے ہیں۔

غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے والے افراد میں گجرات اور منڈی بہاؤ الدین سمیت پنجاب کے مختلف علاقوں کے نوجوان شامل ہیں جب کہ پنجاب میں تقریباً تین ہزار انسانی اسمگلرز متحرک ہیں جو نوجوانوں کو یورپ سمیت دیگر ممالک میں مختلف راستوں کے ذریعے بھیجتے ہیں۔

انسانی اسمگلرز غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے والے نوجوانوں کو کوئٹہ میں جمع کرتے ہیں اور پھر بلوچستان سے اُنہیں ترکی بذریعہ ایران بھجوایا جاتا ہے۔

ترکی سے یونان تک کا سفر سمندر سے کیا جاتا ہے اور اس سفر میں کئی افراد پانی کی لہروں کی نظر ہو جاتے ہیں جب کہ بمشکل 30 سے 35 فیصد افراد ہی یونان پہنچ پاتے ہیں۔ جہاں سے اٹلی، برطانیہ سمیت یورپ کے دیگر ملکوں کا رُخ کرتے ہیں۔ یورپ کے علاوہ جنوبی افریقہ بھی غیر قانونی سفر اختیار کرنے والے پاکستانیوں کے لیے پرکشش مقام ہے ۔

ایران نے 2016 میں 29 ہزار 74 اور 2017 میں 30 ہزار 740 افراد کو گرفتار کرکے تافتان سرحد پر پاکستان کے حوالے کیا تھا۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے مطابق اکتوبر 2017 تک ایک ہزار 8 سو 98 انسانی اسمگلنگ میں ملوث مجرموں کو سزائیں سنائی گئی تھیں۔ جن میں سے ایک ہزار دو سو 45 افراد کو صرف جرمانے کی سزا دی گئی۔

سال 2018 میں گوجرانوالہ ریجن کے نو نوجوان یونان جانے کی کوشش میں جان سے گئے جب کہ تین ہزار سے زائد افراد کو ڈی پورٹ کیا گیا۔ گجرانوالہ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے انسانی اسمگلنگ میں ملوث 219 اشتہاریوں سمیت 810 ملزمان کو گرفتار کیا اور 14 کروڑ 63 لاکھ سے زائد رقم برآمد کی۔

انسانی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے ایف آئی اے کا اینٹی ٹریفکنگ یونٹ اکتوبر 2002 میں قائم کیا گیا جس کا کام انسانی اسمگلنگ کے متاثرہ افراد کا تحفظ، انہیں شیلٹر ہوم بھیجنا، اُن کی بحالی کے لیے اقدامات اور وطن واپسی کو بھی یقینی بنانا ہے۔

پاک ایران سرحد اور ساحلی علاقوں میں انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے اینٹی ٹریفکنگ یونٹ کی چیک پوسٹیں قائم ہیں۔ انسانی اسمگلنگ میں ملوث ملزم کو 14 سال تک قید ہو سکتی ہے۔

مختلف عدالتوں میں انسانی اسمگلنگ کے تین ہزار سے زائد مقدمات زیر سماعت ہیں جب کہ ایف آئی اے کے پاس صرف تین افسر، 15 تفتیشی اور 22 اہلکار ہیں جو کہ اس گھناؤنے دھندے میں ملوث افراد کو دبوچنے کے لیے ناکافی ہیں۔


متعلقہ خبریں