طالبان کا امریکہ سے مذاکرات سے انکار


اسلام آباد: امریکہ کی افغانستان میں امن کی کوششوں کو دھچکا لگ گیا۔ طالبان نے کل ہونے والے مذاکرات سے انکارکرتے ہوئے ایجنڈے پر تحفظات کا اظہار کردیا ہے۔

امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا ایک اور دور کل (بروز بدھ) دوحا، قطر میں منعقد کیا جانا تھا۔ جس میں افغان حکومت سمیت کسی بھی دوسرے ملک کا کوئی حکومتی نمائندہ شریک نہیں تھا اور امریکہ اور طالبان کے مابین مذاکرات ’ون آن ون‘ ہونے تھے لیکن طالبان کی جانب سے انکار کے بعد مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہوگیا ہے۔

اس سے قبل عالمی خبررساں ایجنسی سے بات چیت میں ایک طالبان رہنما نے ہونے والے مذاکرات کی تصدیق کی تھی اور ساتھ ہی واضح کیا تھا کہ بات چیت میں ’تیسرا‘ کوئی نہیں ہوگا۔

خبررساں ایجنسی نے طالبان رہنما کے حوالے سے بتایا تھا کہ مذاکرات کا فیصلہ فریقین نے باہمی مشاورت سے کیا ہے۔ طالبان رہنما نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط کے ساتھ یہ بھی بتایا تھا کہ مذاکرات دو روز تک جاری رہیں گے۔

عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق طالبان، امریکی حکام سے اس مرتبہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا، قیدیوں کے تبادلے اور طالبان رہنماؤں کی نقل و حرکت پر عائد پابندیاں ختم کرنے سے حوالے بات چیت کرنا چاہتی تھی۔

خبررساں ایجنسی کے مطابق یہی بڑی وجہ ہے کہ طالبان صرف امریکی حکام سے گفت و شنید میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ماضی میں بھی طالبان متعدد مرتبہ یہ واضح کرچکے ہیں کہ ان کے مذاکرات صرف امریکی حکام سے ہوں گے حالانکہ کئی مرتبہ افغان حکومت نے انہیں مذاکرات کے لیے مدعو کیا اور باضابطہ بات چیت کی بھی دعوت دی جو طالبان کی جانب سے یکسر مسترد کردی گئی۔

عالمی خبررساں ایجنسی نے توقع ظاہر کی تھی کہ مذاکرات میں امریکی وفد کی قیادت اس کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان مفاہمت زلمے خؒلیل زاد کریں گے۔

افغان طالبان اور امریکی حکام کے درمیان گزشتہ ماہ بھی متحدہ عرب امارات میں تین دن تک بات چیت جاری رہی تھی جس میں میزبان ملک کے علاوہ افغان حکومت، سعودی عرب اور پاکستان کے نمائندے شامل تھے۔

طالبان کسی صورت افغان حکومت یا اس کے نمائندوں سے بات چیت پر تیار نہیں

افغانستان کے موجودہ صدر اشرف غنی اوران کی حکومت تسلسل کے ساتھ اس مؤقف کی حامی رہی ہے کہ افغان طالبان سے مذاکرات افغان حکومت کو کرنے چاہئیں کیونکہ وہی بااختیارہے مگر طالبان کسی بھی صورت افغان حکومت یا اس کے نمائندوں سے بات چیت پر تیار نہیں ہیں۔

افغان طالبان قیادت اور ان کے رہنماؤں کی جانب سے ہمیشہ سے یہی مؤقف سامنے آیا ہے کہ افغان حکومت محض کٹھ پتلی ہے جس سے بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

طالبان قیادت ابتدا سے یہی کہتی آئی ہے کہ اس کی اصل لڑائی امریکہ کے ساتھ ہے کیونکہ وہ ہماری سرزمین پر قابض ہے۔ طالبان قیادت کے بقول اصل مسئلہ حل ہی اس وقت ہو گا جب امریکی افواج ہماری سرزمین خالی کرکے واپس جائیں گی اور چونکہ یہ کام صرف امریکی حکام ہی کرسکتے ہیں اس لیے وہ بات چیت بھی انھی کے ساتھ کریں گے۔

17 سال گزر جانے کے بعد بھی افغانستان میں 14 ہزار سے زائد فوجی قیام پذیر ہیں اور پورا ملک حالت جنگ ہی میں گردانا جاتا ہے۔

اصولی طور پر امریکہ اور طالبان قیادت کے درمیان مذاکرات کا نیا دور گزشتہ چند روز قبل سعودی عرب میں ہونا تھا لیکن جب ان مذاکرات میں افغان حکومت کو بھی شریک کیے جانے کا اصرار سامنے آیا تو طالبان نے اس عمل میں شریک ہونے سے ہی انکار کردیا جس کے بعد دوحا میں مذاکرات کرنے پہ ان کی جانب سے حامی بھری گئی تھی۔

سعودی عرب میں ہونے والے مذاکرات کی منسوخی کے بعد افغان طالبان رہنما کا یہ مؤقف سامنے آیا تھا کہ مذاکرات کا نیا دور دوحا، قطر منتقل کردیا جائے۔ قطر میں افغان طالبان کا سیاسی دفتر بھی قائم ہے۔

خبررساں اداروں کے مطابق طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے والے ممالک اپنی جانب سے تسلسل کے ساتھ افغان طالبان کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے آئے ہیں کہ وہ مذاکرات میں افغان حکومت کی شرکت پر آمادہ ہوجائیں مگر وہ انکاری ہیں اور ایسے کسی بھی عمل میں شریک ہونے کے لیے تیارنہیں ہیں جس میں افغان حکومت یا اس کے کسی بھی نمائندے کا عمل دخل ہو۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ افغانستان کے مسئلے کا جلد تصفیہ کرکے وہاں تعینات امریکی افواج کو وطن واپس بلانا چاہتے ہیں۔ وہ شام سے بھی امریکی افواج کے انخلا کا اعلان کرچکے ہیں جس کی وجہ سے انہیں اندرون ملک بھی سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے بھی گزشتہ دنوں کہا تھا کہ ان کی کوشش ہے کہ رواں سال کے وسط تک افغانستان میں طالبان کے ساتھ کوئی معاہدہ طے پا جائے۔


متعلقہ خبریں