بابری مسجد کیس، بھارتی جج نے کیس سننے سے معذرت کر لی


نئی دہلی: بھارتی سپریم کورٹ نے جسٹس یویو للت کی جانب سے  بابری مسجد کیس سننے سے معذرت کے بعد سماعت 29 جنوری تک ملتوی کر دی.

بھارتی سپریم کورٹ میں چیف جسٹس رانجن گوگوئے کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی بینچ نے الہ آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلوں کی سماعت کی۔

الہ آباد ہائیکورٹ نے بابری مسجد کی اڑھائی ایکٹر زمین کے 3 حصے کرنے کا فیصلہ دیا تھا۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس یویوللت نے کیس کی شنوائی سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایودھیا معاملے سے متعلقہ کیس پر ایڈوکیٹ رہ چکے ہیں اس لیے وہ کیس نہیں سن سکتے۔

دوران سماعت ایڈووکیٹ راجیو دھون نے موقف اختیار کیا تھا کہ جسٹس للت نے  بابری مسجد تنازعہ سے جڑے کلیان سنگھ  کیس کی پیروی کی تھی۔

واضح رہے کلیان سنگھ  بابری مسجد کی مسماری کے وقت اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ تھے۔

بابری مسجد کیس کی سماعت کرنے والے بینچ میں ایک مسلمان جج ضرور شامل ہوتا رہا ہے لیکن آج ہونے والی سماعت کے لیے تشکیل دیے گئے بینچ میں کوئی مسلمان جج شامل نہیں تھا۔

سپریم کورٹ نے نیا بینچ تشکیل دیے جانے تک کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔

واضح رہے کہ بھارتی ریاست اترپردیش میں واقع ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد کی شہادت کو 26 برس مکمل ہو چکے ہیں لیکن واقعے میں ملوث کسی ایک ملزم کو بھی سزا نہیں دی گئی۔

چھ دسمبر 1992 کو انتہاپسند ہندوؤں کے ٹولے نے تمام قانونی، سماجی و اخلاقی اقدار پامال کرتے ہوئے تاریخی بابری مسجد شہید کردی تھی۔

بابری مسجد کی تاریخ

بھارت میں تعمیر کی گئی تین گنبدوں والی قدیم مسجد شہنشاہ بابر کے دور میں اودھ کے حاکم میرباقی اصفہان نے 1528 عیسوی (935 ہجری) میں تعمیر کرائی تھی۔

مسجد کے مسقف حصہ میں تین صفیں تھیں اور ہر صف میں ایک سو بیس نمازی کھڑے ہوسکتے تھے، صحن میں چار صفوں کی وسعت تھی، اس طرح بیک وقت ساڑھے آٹھ سو نمازی نماز ادا کرسکتے تھے۔

مسجد کے درمیانی مرکزی در کے اوپر 2 میٹر لمبی اور 55 سینٹی میٹر چوڑی پتھر کی تختی کا ایک کتبہ نصب تھا، جس کی پہلی اوپر سطر میں ”بسم اللہ الرحمن الرحیم و بہ ثقتی“ خوشنما بیلوں کے درمیان لکھا ہوا تھا، اور نیچے کی تین سطروں میں فارسی زبان کے اشعار درج تھے۔


متعلقہ خبریں