لاہور: پا کستانی انڈس واٹر کمیشن کے سربراہ سید مہر علی شاہ نے بتایا ہے کہ بھارت نے دریائے چناب پر زیر تعمیر آبی منصوبوں کے معائنے کیلئے مثبت اشارے دیے ہیں۔
سید مہر علی شاہ کا کہنا ہے کہ پا کستانی ماہرین کا وفد دریائے چناب پر بننے والےمنصوبے لوئر کلنائی اور پاکل دل کا معائنہ کرے گا مزید برآں بھارت نے اسی دریا پر پر بنائے جانے والے دیگر منصوبوں کے معائنہ کے حوالے سے بھی مثبت اشارے دیے ہیں۔
انہوں نے بھارت کے حالیہ اقدام کو پاک بھارت آبی تنازع پر بڑی پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پر پا کستان نے بھر پور آواز بلند کی جس پر کامیابی ملی ہے۔
وفاقی وزیربرائے آبی وسائل فیصل واوڈا نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پاک بھارت آبی تنازعہ میں بڑی پیش رفت ہوئی ہے۔
Pakistan and India have been into Indus water treaty dispute for ages. Due to our continued efforts there’s a major breakthrough that India has finally agreed to our request for inspection of Indian projects in Chenab basin.
— Faisal Vawda (@FaisalVawdaPTI) January 11, 2019
امکان ظاہر کیا جارہا ہے رواں ماہ کے آخر میں پاکستانی انڈس واٹر کمیشن کا وفد سید مہر علی شاہ کی سربراہی میں بھارت کا دورہ کرے گا۔
بھارتی انڈس واٹر کمشنر پی کے سکسینا کی سربراہی میں گزشتہ برس اگست میں بھارتی وفد پا کستان آیا تھا اور مہمان وفد نے مذاکرات کی ناکامی کے بعد پکل دل ڈیم اور لوئر کلنئی پر کام جاری رکھنے کاعندیہ دے دیا تھا۔
اگست 2018 میں دونوں ممالک کے وفود میں مذاکرات کے تین دور ہوئے تھے۔ پاکستان نے دریائے چناب پر تعمیر ہونے والے بھارت کے پکل ڈل اور لوئر کلنائی منصوبوں کے ڈیزائن پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
پاکستان نے مطالبہ کیا تھا کہ پکل ڈل پن بجلی گھر کی جھیل بھرنے اور وہاں سے پانی چھوڑے کا طریق کار بھی واضح کیا جائے تاہم بھارتی ہٹ دھرمی کے سبب تین روزہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے تھے۔
سندھ طاس معاہدے پر دونوں ممالک نے 1960 میں دستخط کیے تھے۔ جس کے تحت دریائے سندھ، جہلم اور چناب کا پانی پاکستان جب کہ راوی، ستلج اور بیاس کا پانی بھارت کے لیے مختص کیا گیا تھا۔
پاکستان کا مؤقف ہے کہ بھارت کی طرف سے دریائے چناب پر ڈیمز کی تعمیر سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور ہمسایہ ملک کے اس اقدام کا مقصد پاکستان کو خشک سالی سے دوچار کرنا ہے تاہم بھارت اپنی روایتی ہٹ دھرمی کے سبب پاکستانی مؤقف ماننے سے انکار کرتا آیا ہے۔