جعلی پولیس مقابلہ، نقیب اللہ کے قتل کو ایک برس بیت گیا

فوٹو: رائٹرز


کراچی: کراچی میں جعلی پولیس مقابلے میں جاں بحق ہونے والے شہری نقیب اللہ محسود کے قتل کو ایک سال بیت گیا۔

27 سالہ نسیم اللہ عرف نقیب اللہ محسود کو 13 جنوری 2018 کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں مبینہ پولیس مقابلے کے دوران جاں بحق کر دیا گیا تھا جبکہ اس کی لاش کی شناخت 17 جنوری کو ہوئی تھی۔

سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نقیب اللہ محسود کو تحریک طالبان کا کمانڈر ظاہر کیا تھا۔

نقیب اللہ کے قتل کے بعد اُن کی تصاویر اور جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت کی خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور لوگوں نے پولیس کو کڑی تنقید کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا جبکہ سول سوسائٹی نے واقعہ کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے پولیس کے اقدام کو ماورائے عدالت قتل قرار دیا۔

نقیب اللہ کے قتل کی خبر نے پوری قوم کو جنجھوڑ کر رکھ دیا اور ہر جانب سے پولیس کے اقدام کے خلاف آواز اٹھنے لگی جبکہ کراچی، اسلام آباد سمیت مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے بھی دیے گئے۔

سپریم کورٹ پاکستان نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی جب کہ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت جعلی پولیس مقابلے میں شریک دیگر پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا گیا جس کے بعد ملزمان کے خلاف دو مقدمات درج کر لیے گئے۔

اس وقت کے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے بھی واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے موجودہ آئی جی گلگت بلتستان اور اس وقت کے ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثنا اللہ عباسی کی سربراہی میں تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی اور پھر ایڈیشنل آئی جی آفتاب پٹھان کی سربراہی میں دوسری کمیٹی تشکیل دی گئی۔ جس نے تحقیقات کے بعد نقیب اللہ محسود کو بے قصوراوراس کی ہلاکت کو ماورائے عدالت قتل قرار دیا۔

کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں جعلی پولیس مقابلے کا انکشاف کرتے ہوئے نقیب اللہ کے پیش کیے گئے ریکارڈ کو بھی جعلی قرار دیا اور راؤ انوار کو عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی۔

کمیٹی کی رپورٹ کے بعد 20 جنوری کو راؤ انوار اور اُن کی ٹیم کو معطل کر دیا گیا جب کہ راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کر دیا گیا۔ اس تمام معاملے کے دوران پولیس افسر راؤ انوار نامعلوم مقام پر روپوش ہو گئے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے راؤ انوار کو تحفظ کی یقین دہانی کے بعد راؤ انوار نے خود کو اچانک ہی سپریم کورٹ کے سامنے سرنڈر کر دیا۔

اے ٹی سی میں راؤ انوار کے خلاف سماعت جاری ہے تاہم راؤ انوار ضمانت پر رہا ہیں۔

رواں ماہ راؤ انوار نے سپریم کورٹ سے اپنا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ مقدمہ کی سماعت سست روی سے جاری ہے اس لیے اُن کا نام ای سی ایل سے نکالا جائے تاہم عدالت نے اُن کی درخواست مسترد کردی تھی۔


متعلقہ خبریں