پچھلے 800 سال کے دوران مسلمانوں نے ایک بھی ایجاد نہیں کی، پرویز ہود بھائی



اسلام آباد: معروف دانشور اور ماہر تعلیم ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کا کہنا ہے کہ پچھلے 800 سال کے دوران مسلمانوں نے ایک بھی ایجاد نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ماننے کا سبق دیتے ہیں جس کی وجہ سے تحقیق کا رویہ پنپ نہیں رہا۔ جس قسم کی تعلیم ہمیں دی جا رہی ہے وہ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔

ہم نیوز کے پروگرام ’ایجنڈا پاکستان‘ کے میزبان عامر ضیاء سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم اپنے بچوں کے لیے اطاعت پر زور دیتے ہیں لیکن جدید دور کی تعلیم کا تقاضا یہ ہے کہ آپ سوال کرنا سیکھیں اور تجسس کی صلاحیت کو پروان چڑھائیں۔

پرویز ہود بھائی نے کہا کہ ڈیجیٹل شعبے میں ترقی کی بدولت یہ امید تھی کہ چونکہ اب تعلیم ہر کسی کی دسترس میں ہے اس لیے معیار تعلیم بھی بہتر ہو گا لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہوا جس کی وجہ سے پاکستانیوں کے لیے دنیا میں تعلیم کے مواقع کم ہو رہے ہیں۔ مشرق وسطی کے ممالک میں بھی بھارتی باشندے بہت اعلی عہدوں پر فائز ہیں جبکہ پاکستانی زیادہ تر محنت مزدوری والے کام کرتے ہیں۔

پروگرام کے میزبان عامر ضیاء نے کہا کہ ہم تو ابھی ’علم کی بنیاد پر معیشت‘ جیسے تصورات سے دور ہیں اور تعلیم کے حوالے سے بنیادی معاملات پر ہی الجھے ہوئے ہیں۔ اس پر پرویز ہود بھائی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 2 لاکھ 60 ہزار سکول ہیں اور بیس سے تیس فیصد بچے اسکول نہیں جا پاتے، اس کے علاوہ جو بچے سکول جاتے ہیں ان کی بھی ذہنی نشو و نما نہیں ہو پاتی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سرسید احمد خان کی روایت کو پھر سے زندہ کرنے کی ضرورت ہے، ہم انہیں دوقومی نظریہ کا بانی تو قرار دیتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ ان کی زندگی میں سرسید احمد خان پر کفر کے 5555 فتوے بھی لگے تھے۔ برطانوی دور حکومت میں لارڈ میکالے نے تعلیمی نظام دیا تو ہندوؤں نے اسے خوش آمدید کہا لیکن صرف بنگال کے 8000 علما نے لکھ کر دیا کہ ہمیں یہ اصلاحات منظور نہیں ہیں۔

پرویز ہودبھائی نے عامر ضیا کے اس نکتہ نظر کی تائید کی کہ ہم جدید فکر اور مغرب زدہ ہونے میں فرق نہیں کرتے، انہوں نے کہا کہ جو لوگ مغرب کی اندھی تقلید کرتے ہیں وہ ذہنی طور پر غلام ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھنا چاہیئے کہ اب ہمیں کامیاب ممالک سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ چین اور جاپان جیسے ممالک نے بھی اسی بات پر عمل کیا ہے۔

میزبان عامر ضیاء کا کہنا تھا کہ پاکستان واحد ملک ہے جس میں کئی صدیاں ساتھ ساتھ چل رہی ہیں، یہاں 21ویں صدی کا دور بھی موجود ہے اور موہنجو داڑو والی سوچ بھی کارفرما ہے۔

پرویز ہود بھائی نے کہا کہ ہمیں تعلیمی نصاب بدلنا ہو گا اور سائنسی مضامین پر توجہ دینی پڑے گی، ہمیں اساتذہ کو ایک بار پھر تعلیم دینا پڑے گی، اس وقت ہمارے 13 سال کے بچے کی تعلیمی سطح جاپان کے 7 سال کے بچے کے برابر ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں یکساں نظام تعلیم کی ضرورت ہے تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ سب بچوں کو وہ تعلیم دی جائے جو مدارس میں پڑھائی جاتی ہے، اس کے بجائے ہمیں جدید طرز کی تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔ اساتذہ کی تنخواہوں میں بھی زیادہ فرق نہیں ہونا چاہیئے۔

مدارس کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہاں کے پڑھنے والوں کو زیادہ ملازمتیں میسر نہیں ہوتیں، مدارس کے نصاب میں تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔

سائنسی میدان میں قحط الرجال کے حوالے سے ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے انکشاف کیا کہ پوری دنیا کی کسی یونیورسٹی میں ایک بھی اول درجے کا پاکستانی ریاضی دان موجود نہیں ہے، اس کی وجہ ثقافتی ہے اور اسی لیے ہم سائنسی لحاظ سے جمود کا شکار ہیں۔

قائد اعظم یونیورسٹی کی زمین پر قبضے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پیپلزپارٹی کے رہنما نیر بخاری نے قائداعظم یونیورسٹی کی زمین پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ جب میں نے اس معاملے پر بات کی تو نیئر بخاری نے عدالت میں میرے اوپر ایک ارب روپے کا دعویٰ دائر کر دیا۔

انہوں نے بتایا کہ 2006 میں نئیر بخاری نے یونیورسٹی کی زمین پر اپنا مکان بنانا شروع کر دیا اور یہاں سے گزرنے والی سڑک پر نیئر حسین بخاری روٖڈ کی تختی لگا دی۔ انہوں نے کہا کہ قائد اعظم یونیورسٹی کی زمین پر تجاوزات کے خلاف حکومتی مہم ناکافی ہے، اس زمین پر ناجائز طور پر تعمیر کیا گیا ایک بھی مکان ابھی تک نہیں گرایا گیا۔

پرویز ہود بھائی نے بتایا کہ 1996 میں جب بینظیر بھٹو وزیراعظم تھیں تو انہوں نے قائد اعظم یونیورسٹی کی زمین پر ہاؤسنگ سوسائٹی بنانے کا فیصلہ کیا، ہم نے اس کی مخالفت کی اور عدالت سے حکم امتناعی حاصل کیا کیونکہ ہمارا خیال تھا کہ یہ آنے والی نسلوں کی زمین تھی۔


متعلقہ خبریں