پنجاب حکومت میں کام کرنے کی نیت اور قابلیت نہیں، چیف جسٹس

پنجاب حکومت میں کام کرنے کی نیت اور قابلیت نہیں، چیف جسٹس | urduhumnews.wpengine.com

فائل فوٹو


اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے پانی کی قیمتوں کے تعین اور استعمال سے متعلق کیس ریمارکس دیے ہیں کہ پنجاب حکومت میں نیت اور قابلیت دونوں ہی نہیں ہیں، مجھے لگتا ہے سارا کام کاغذوں کی نظر ہو جائے گا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین رکنی بینچ نے چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں معاملے کی سماعت کی اور ایڈوکیٹ جنرل پنجاب سمیت دیگر فریقین عدالت میں پیش ہوئے۔

ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعظم اور کابینہ کو سمری بھجوا دی ہے۔ سیکرٹری لا اینڈ جسٹس کمیشن کا کہنا تھا کہ  کمیشن نے کی قیمت اور استعمال سے متعلق رپورٹ جمع کروائی ہے، رپورٹ میں چند تجاویز پیش کی گئیں ہیں۔

سیکرٹری لا اینڈ جسٹس نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے جو تجاویز دیں ان پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا اور ابھی تک پانی کے مسئلے پر آگاہی کے لئے کوئی مہم بھی شروع نہیں ہوئی۔ عدالت کو آگاہ کیا کہ اسلام اباد میں پانچ مرلے اور 2 کنال کے گھر پر ایک ہی ٹیکس لاگو کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ پانی نایاب ہورہا ہے سونے سے بھی زیادہ قیمتی ہوچکا ہے، ہم پانی استعمال کر رہے پیں لیکن تاحال قیمت مقرر نہیں ہوئی۔

بینچ کے سربراہ نے استفسار کیا کہ بتایا جائے صوبوں اور وفاق نے کیا میکینزم بنایا ہے۔  جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ بوتل کے پانی کے علاوہ دیگر صنعتوں کے پانی کے استعمال کی قیمت کا بھی تعین ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ صنعتیں استعمال شدہ پانی کو دوبارہ قابل استعمال بنائیں، لاہور ہائی کورٹ کے جج نے اچھی تجویز پیش کی کہ مساجد میں وضو کے لیے استعمال ہونے والے پانی کو دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔

بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ واٹر کمیشن نے اس پر بہت کام کیا ہے لیکن عمل درآمد کچھ نہیں، سب کچھ حکومت کوتیار کرکے دیا جا رہا ہے، سارے کاغذ سپریم کورٹ کے ریکارڈ روم میں پڑے رہ جائیں گے، آپ کی نیت ہی نہیں کہ آپ کام کریں ہربات پر بیورکریٹک رکاوٹیں سامنے آتی ہے۔

پنجاب حکومت کے نمائندہ آبپاشی نے عدالت کا آگاہ کیا کہ صوبائی حکومت نے  38 میں سے 31 تجاویز منظور کی ہیں، سیمینار کی بہت ساتی سفارشات پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے اور پنجاب واٹر پالیسی بنا دی گئی ہے۔

جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ لیکن حکومت نے واٹر پالیسی کو عدالت میں جمع نہیں کرایا، پنجاب حکومت نے منصوبہ بہت اعلی بنایا ہے لیکن کاغذوں میں۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ آپ لوگوں نے کچھ نہیں کرنا،  ہمیں پیاسا مار دینا ہے، پھر میں کہوں گا تو خبر لگ جائے گی کہ حکومت کی اہلیت پر سوال اٹھارہے ہیں۔ انہوں نے ریمارکس دیے کہ صوبائی حکومتیں کچھ کام نہیں کررہیں آپ لوگ صرف وقت گزارنے کا انتظار کر رہے ہیں۔

سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں 15 دنوں میں پیراوائیز کمنٹس جمع کرائیں۔


متعلقہ خبریں