اصل خوشی والد کے گھر آنے پر ہوگی، مریم نواز


اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ آج کے فیصلے پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرتی ہوں۔

ہم نیوز کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر جاری کردہ اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ ایک لمحے کے لیے بھی اپنے بارے میں فکر نہیں کی۔ انہوں نے مؤقف اپنایا ہے کہ اصلی ریلیف اور خوشی تب نصیب ہوگی جب میرے والد گھر آئیں گے۔


سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے سپریم کورٹ کے فیصلے پرعوام کی جانب سے کی جانے والی دعاؤں کا بھی شکریہ ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے خدا کی ذات اور اس کی رحمت پر مکمل یقین ہے۔

ہم سپریم کورٹ میں سرخرو ہوگئے، شہباز شریف

ہم نیوز کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدرشہباز شریف نے بھی عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم سپریم کورٹ میں سرخرو ہوگئے۔ انہوں نے امید ظاہر کی اسلام آباد ہائی کورٹ سے بھی انصاف کی امید ہے۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں کہا کہ آپریشن ضرب عضب سے دہشت گردی میں کمی آئی اور فوجی عدالتیں بننے سے دہشت گردوں میں خوف پیدا ہوا۔

سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ فوجی عدالتوں کا قیام نوازشریف کا ہی اقدام تھا۔ فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے رابطہ کیا تو دیکھیں گے۔

نیب نواز شریف کے خلاف کوئی بھی الزام ثابت نہیں کر سکی،مریم اورنگزیب 

ہم نیوز کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے ردعمل میں کہا ہے کہ نواز شریف اور شریف خاندان نے تین نسلوں اورتین دہائیوں کے ذاتی کاروبار کا حساب دیا لیکن نیب نواز شریف کے خلاف کوئی بھی الزام ثابت نہیں کر سکی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے پر پی ایم ایل (ن) کی ترجمان اور سابق وفاقی وزیر مریم اورنگزیب نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرتے ہیں۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہر امتحان سے سرخرو ہوں گے کیونکہ اُن کی نیت صاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف اور شریف خاندان نے تین نسلوں اور تین دہائیوں کے ذاتی کاروبار کا حساب دیا، ملک کو ایٹمی اور معاشی قوت بنایا، پاکستان کے نوجوانوں کو روشن مستقبل کی اُمید دی اور دن رات نیک نیتی، ایمانداری اور دیانتداری سے ملک و قوم کی خدمت کی۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور ان کے داماد کیپٹن (ریٹائرڈ) صفدر کی سزاؤں کی معطلی کے خلاف نیب اپیلوں کی سماعت سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی ۔

بنچ کے دیگر ارکان میں جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس گلزار، جسٹس مشیر عالم اور جسٹس مظہر عالم شامل تھے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں سماعت شروع ہوئی تو پی ایم ایل (ن) کے قائد نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث اور مریم نواز کے وکیل امجد پرویز عدالت میں پیش ہوئے۔

ہم نیوز کے مطابق نواز شریف کے وکیل صفائی خواجہ حارث نے عدالت عظمیٰ کے گوش گزار کیا کہ 17 قانونی نکات ہیں جن پر عدالت نے بحث کا کہا تھا۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے اس پر ریمارکس دیے کہ قبل ازیں اس پر بات ہو چکی ہے آج پہلے نیب کا مؤقف سن لیتے ہیں۔

استغاثہ کے وکیل اکرم قریشی نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سزا معطلی میں قانونی تقاضے کو مدنظر نہیں رکھا۔ انہوں نے گوش گزار کیا کہ کیس کے میرٹس پر بات کی گئی جو کہ ہائیکورٹ کا اختیار نہیں ہے۔

عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران بنچ کے سربراہ نے نیب کے وکیل سے استفسار کیا کہ ہمیں سارے حقائق پتا ہیں اس سے ہٹ کر آپ کس بنیاد پر ضمانت کی منسوخی چاہتے ہیں؟ ان کا استفسار تھا کہ آپ بتا دیں کن اصولوں پر ضمانت منسوخ ہو سکتی ہے اور یہ بھی بتائیں کہ کیا ہائی کورٹ کو سزا معطل کرنے کا اختیار تھا؟

نیب کے وکیل اکرم قریشی نے مؤقف اپنایا کہ ضمانت کے کیس میں میرٹ کو نہیں دیکھا جا سکتا لیکن ہائی کورٹ نے میرٹ کو دیکھا، اس کیس میں ہائی کورٹ، ٹرائل کورٹ کے میرٹ پر گئی جو کہ اختیارات سے تجاوز تھا، ہائی کورٹ نے خصوصی حالات کو بنیاد بنایا۔

بنچ کے رکن جسٹس گلزار نے اس موقع پر ریمارکس دیے کہ ضروری نہیں کہ یہ حالات واقعی ایسے ہوں۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس میں کہا کہ ضمانت تو اب ہوگئی ہے، بےشک غلط اصولوں پر ہوئی ہو۔ ان کا استفسار تھا کہ آپ ہمیں مطمئن کریں کہ ہم کیوں کر ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیں؟

بینچ کے رکن جسٹس گلزار نے استغاثہ سے استفسار کیا کہ آپ ضمانت منسوخی کن بنیادوں پر چاہ رہے ہیں؟

نیب کے وکیل اکرم قریشی نے مؤقف اپنایا کہ میں سپریم کورٹ کے مقدمات کی بنیاد پر ہی کہہ رہا ہوں، صرف ہارڈ شپ کے اصولوں پر ضمانت ہو سکتی ہے جب کہ نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت ہارڈ شپ کے اصولوں پر نہیں ہوئی ہے۔

بنچ کے رکن جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس موقع پر ریمارکس دیے کہ نواز شریف تو باقاعدگی سے عدالتی کارروائی کا حصہ بنتے آرہے ہیں، پھر آپ کیوں سزا معطلی کے خلاف فیصلہ چاہتے ہیں؟ ان کے ریمارکس تھے کہ سزا معطلی کے فیصلے کے خلاف آپ کے پاس ٹھوس شواہد ہونے چاہئیں۔

انہوں نے استفسار کیا کہ نیب کے لیے کیا مشکل ہے کہ بری ہو گئے ہیں؟ کس بنیاد پر ضمانت منسوخ کرانا چاہتے ہیں؟ کیا ضمانت کا غلط استعمال ہوا ہے؟

چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ ضمانت فیصلے میں دی گئی آبزرویشن وقتی ہوتی ہے، عبوری حکم کبھی حتمی نہیں ہوتا اور حتمی حکم پر اثر انداز بھی نہیں ہوتا۔

جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ جس بنیاد پر نواز شریف کو سزا ہوئی اسی بنیاد پر ان کی ضمانت بھی ہوئی۔ ان کا مؤقف تھا کہ آپ نے تو اس بنیاد کو چیلنج ہی نہیں کیا؟

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ نے خود کہا ہے کہ اوبزرویشن حتمی نہیں ہے۔ انہوں نے مؤقف اپنایا کہ ہائی کورٹ نے غیر ضروری طور پر تجاوز نہیں کیا۔

وکیل نیب نے سپریم کورٹ میں گوش گزار کیا کہ ہارڈ شپ کی بنیادوں پر ضمانت نہیں ہوئی۔

بنچ کے رکن جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ لیکن یہ کوئی آپ کی ٹھوس بنیاد نہیں ہے۔

ہم نیوز کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان نے نواز شریف کی سزا معطلی کے خلاف اپیل خارج کرتے ہوئے سماعت برخاست کردی۔

گزشتہ برس ستمبر میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں شریف خاندان کی سزاؤں سے متعلق درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے احتساب عدالت کی دی گئی سزائیں معطل کر دی تھیں۔

احتساب عدالت نے چھ جولائی 2018 کو نواز شریف کو ایون فیلڈ (لندن فلیٹس) ریفرنس میں دس سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے 19 ستمبر کو رہائی کا حکم دیا تھا۔


متعلقہ خبریں