ایک ماہ میں دوسری کامیابی: چین نے چاند پر کپاس اگالی


اسلام آباد: خلائی سائنس و تحقیق میں چین نے ایک سنگ میل گزشتہ روز اس وقت عبور کیا جب چینی خلائی مشن کے ذریعے چاند پر بھیجے جانے والے کپاس کے بیج سے پودا پھوٹ پڑا۔ معلوم انسانی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ’چندا ماموں‘ جہاں برصغیر کی روایتی کہانیوں میں بڑھیا چرخا کاتتی تھی، کسی ’حیات‘ کی پیدائش ہوئی ہے۔

عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق پاکستان کے ’عظیم‘ دوست ملک چین کے سائنسدانوں نے حیاتیاتی مطالعہ کے لیے چینج فور نامی خلائی مشن کے ذریعے چھ اشیا ’دور سے تکنے والے‘ چاند پر بھیجی تھیں۔

چاند پر بھیجی جانے والی اشیا میں کپاس، سرسوں۔ تل اور آلو کے مخصوص بیجوں کے علاوہ خمیر کے بیکٹیریا اور پھلوں پر بیٹھنے والی مکھی شامل تھی۔ چین کے سائنسدانوں نے فی الوقت تک یہی بتایا ہے کہ صرف کپاس کے بیج سے پودا پھوٹا ہے یعنی چاند کی زمین پہ ’زندگی‘ نے ’جنم‘ لیا ہے۔

عالمی خبررساں ادارے کے مطابق جب چین کے سائنسدانوں نے چاند کے تاریک حصے پر خلائی مشن بھیجنے کا فیصلہ کیا تو چین کی ’چونگ شن یونیورسٹی‘ کے سائنسدانوں نے حیاتیاتی تجربات کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے تحت زمین پر اگنے والی بعض فصلوں کو چاند پر اگانے کی کوشش کرنا بھی شامل تھا۔

چین سے بھیجے جانے والے خلائی مشن کی ذمہ داریوں میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ چاند کی سطح پر موجود منرلز کی تلاش کرے گا اور نیوٹرونز کے ردعمل سمیت دیگر متعلقہ امورکا جائزہ لے گا جس سے چاند کے متعلق اور اس کے ماحول کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔

چین کے سائنسدانوں نے پہلے کپاس کے پودے کی تصاویر بھی جاری کی ہیں لیکن ’دی گارڈین‘ نے یہ بتایا ہے کہ اس کی زندگی نہایت مختصر تھی کیونکہ منجمد درجہ حرارت میں وہ زندہ نہیں رہ سکا اور زندگی کی بازی ہار گیا۔

سائنسدانوں کے مطابق چاند کے تاریک حصے میں درجہ حرارت منفی 170 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔

اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ چاند پر جہاں پہلی مرتبہ کسی زندگی کی پیدائش ہوئی وہیں پہلی ہی مرتبہ کسی جاندار نے اپنی زندگی کی بازی بھی ہاری جس کا مشاہدہ یقیناً سائسدانوں کو اہم معلومات فراہم کرے گا۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ چاند کا درجہ حرارت، موسم اوراس کی کش ثقل زمین سے مطابقت نہیں رکھتی ہے اور سب کچھ یکسر مختلف ہے۔

خبررساں ایجنسی کے مطابق یونیورسٹی کی ’ایڈوانس ٹیکنالوجی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ کے سائنسدانوں نے چاند گاڑی میں بھیجنے کے لیے ایک بہت چھوٹا سا خصوصی کنٹینر تیار کیا تھا جس کا سائز صرف 7 انچ تھا۔ کنٹینر میں مٹی، پانی، ہوا اور بیج ڈالے گئے تھے۔

چاند گاڑی ’’چانگ فور‘‘ سے زمینی مرکز پر موصول ہونے والی تازہ تصاویر میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ کپاس کے بیچ سے کونپلیں پھوٹ رہی ہیں۔

حیاتیاتی تجربہ کرنے والی سائنسدانوں کی ٹیم کے سربراہ ’ژی جنگ ژن‘ کا کہنا ہےکہ چاند کی سطح پر کسی ’حیاتیاتی نمو‘ کا یہ پہلا تجربہ ہے۔

چین کی جانب سے مریخ پر بھی مشن بھیجنے کا اعلان پہلے ہی کیا جا چکا ہے۔

جنوری 2019 کے پہلے ہفتے میں چین کے سائسدانوں نے ایک سنگ میل اس وقت عبور کیا تھا جب چین کے خلائی جہاز ’چنگ ای – 4‘ نے چاند کے ’تاریک حصے‘ کی تصاویر زمین پر بھیجی تھیں۔

انسانی تاریخ میں چار جنوری 2019 کے دن وہ پہلا موقع آیا تھا کہ جب کسی خلائی جہاز نے اس حصے پہ لینڈنگ کی تھی جسے ’ڈارک سائیڈ‘ قرار دیا جاتا ہے اورجو زمین سے کبھی بھی نظر نہیں آتا ہے۔ چین کے سائنسدانوں نے اسے ’خلائی تاریخ‘ کا ایک نیا باب قرار دیا تھا۔

یہ بات بھی تاریخی اہمیت کی حامل تھی کہ اپالو کی لینڈنگ کے تقریباً 50 سال بعد چین کے خلائی جہاز نے چاند پر لینڈنگ کی تھی۔

چینی خلائی جہاز چنگ ای – 4 ایک خود کار گاڑی (Rover) کو لے کر گیا تھا۔ اس مشن کا بنیادی مقصد چاند کے ان اجبنی حصوں کا معائنہ کرنا ہے جو اب تک انسانی دسترس سے ’محفوظ‘ رہے ہیں۔

خبررساں ایجنسی کے مطابق چین کے سائنسدان اس مشن کے ذریعے چاند کی مٹی کا بھی تجزیہ اور معائنہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

چینی سائسدانوں کے عزائم کے متعلق برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ چاند کی سرزمین پر آلو اگانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔


متعلقہ خبریں