مقبول عام فیصلے وقت کی کسوٹی پر پورے نہیں اترتے، قصوری


لاہور: پاکستان کے سابق وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری نے لکھا ہے کہ سپریم کورٹ اپنے مقاصد کے مطابق آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت اپنی طاقت کو مناسب طریقے سے استعمال کر سکتی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ نئے چیف جسٹس اس کا وسیع پیمانے پراستعمال نہیں کریں گے۔ انہوں نے مؤقف اپنایا ہے کہ اس کا بہت زیادہ استعمال ماتحت عدلیہ کی کارکردگی پربرا اثر ڈالتا ہے۔

انہوں نے یہ بات نئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کے نام لکھے گئے کھلے خط میں کہی ہے۔ انہوں نے چیف جسٹس کو نئے منصب کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ وہ اپنی بہترین تعلیمی قابلیت اور قانونی ٹریک ریکارڈ کی بدولت آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے استعمال میں احتیاط برتیں گے، وقار ملحوظ خاطر رکھیں گے اورخود کو سپریم کورٹ کے حقیقی دائرہ کارتک محدود رکھیں گے۔

خط میں جنرل (ر) پرویز مشرف اور شوکت عزیز کے دور میں وزیرخارجہ کے فرائض منصبی ادا کرنے والے خورشید محمود قصوری  نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ میرے خیالات نئے نہیں ہیں کیونکہ یہ سب باتیں میں اپنی کتاب میں پہلے ہی تحریر کرچکا ہوں جو 2016 میں’Neither a Hawk, Nor a Dove‘ کے عنوان سے شائع ہوئی تھی۔

پاکستان کے سابق وزیرخارجہ نے واضح کیا ہے کہ وہ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی دیانت اور قانونی مہارت کا احترام کرتے ہیں لیکن نیک نیتی سے کیے گئے اقدامات بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں اگر ان پران کی روح کے مطابق عمل نہ کیا جائے۔

ان کے مطابق ’’اس امر کی پیشن گوئی کے لیے کسی دانائی کی ضرورت نہیں ہے کہ ایسے جذباتی، فوری نوعیت کے مقبول عام فیصلے دیرپا نہیں ہوتے، وقت کی کسوٹی پرپورے نہیں اترتے اور قوانین معیشت کے بھی منافی ہوتے ہیں‘‘۔

پاکستان کے سابق چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری کے دور کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ ان کے دور میں بیوروکریٹس کو عام شکایات تھیں کہ وہ ان کے کام میں غیر ضروری مداخلت کرتے تھے، انہیں طلب کرکے گھنٹوں انتظار کراتے تھے جس سے ان کا قیمتی وقت ضائع ہوتا تھا اورساکھ بھی متاثرہوتی تھی۔

ان کا مؤقف ہے کہ یہی طرز عمل سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کے دور میں بھی جاری رہا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملکی بیوروکریسی تقریباً مفلوج ہوگئی اورصورتحال قلم چھوڑ ہڑتال کے مترادف رہی۔

خورشید قصوری نے کھلے خط میں امید ظاہر کی ہے کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ ایسی میراث چھوڑیں گے جو ججوں اور وکلا کی آنے والی نسلوں کے لیے باعث فخر ہوں گی۔

خورشید قصوری کے مطابق میڈیا ٹرائل کا سلسلہ بھی سابقہ دور میں جاری رہا اور عدالتی سرگرمیوں کا عالم یہ تھا کہ وہ 24/7 خبروں پہ چھائی رہیں، شاید! ازخود نوٹسز کی وجہ سے ان کی خبریں وزیراعظم سے بھی زیادہ بنیں۔ صورتحال یہ ہوگئی کہ ایگزیکیٹو اور پارلیمنٹ کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہی۔

ان کا کہنا ہے کہ سول حکومت کی بے بسی کا یہ عالم کہ وہ مہمند ڈیم کی افتتاحی تقریب کی تاریخ تک مقرر کرنے کی مجاز نہیں رہی۔

خط میں ان کا کہنا ہے کہ آئینی جمہوریت کی یہ روایات اور طرزعمل نہیں ہے۔ انہوں نے مؤقف اپنایا ہے کہ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس کے سیاسی اورمعاشی امور میں مداخلت کے باوجود ان کا یہ اعتراف کہ وہ ’ہاؤس کو ان آرڈر‘ نہیں کرسکے، صورتحال کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔

پاکستان اسٹیل ملز، ریکو ڈیک اور رینٹل پاور پلانٹ (آر پی پی) کے کیس میں عدالتی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے خورشید محمود قصوری نے لکھا ہے کہ اس وقت جب وہ اسٹیل ملز کی صلاحیت کو بڑھانے کے لۓ روسی حکومت کو پاکستان کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کررہے تھے جو ملکی مفاد میں تھی اوراس ضمن میں ان کی اپنے روسی ہم منصب سے مفید بات چیت بھی ہورہی تھی تو عدالتی فیصلے نے تمام کوششوں پر پانی پھیردیا۔ عدالتی فیصلے نے پاکستان اسٹیل ملز کے نقصان میں اضافہ کردیا جو اب بڑھ کر200 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔

انہوں نے مؤقف اپنایا ہے کہ آر پی پی کے متعلق عدالتی فیصلے کے باعث ملک کو 700 ملین ڈالرز کے ہرجانے کا سامنا ہے، اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہمیں ریکوڈیک میں بھی ہے۔

خورشید محمود قصوری کے مطابق وکلا اورسائلین کو بھی سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس آف پاکستان کے رویے کے متعلق شکایات رہی ہیں۔

انہوں نے افسوسناک انداز میں لکھا ہے کہ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کتنی سختی اور درشت لہجے میں ممتاز اور معزز صحافی حسین نقی کو ’تم‘ کہہ کر مخاطب کیا جو کہ عمر کی آٹھویں دہائی میں ہیں۔

سابق وزیر خارجہ کے مطابق حسین نقی کے ساتھ اپنائے جانے والے طرز تخاطب پر نہ صرف وہ بلکہ ان کی پوری صحافی برادری بھی ششدر رہ گئی۔

خورشید محمود قصوری نے نئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کے نام لکھے گئے خط میں مؤقف اپنایا ہے کہ برطانیہ کے ججوں کے نام کسی ٹیلی فون ڈائریکٹری میں دیکھے گئے اوریہ مشہور مقولہ ہے کہ جج نہیں ان کے فیصلے بولتے ہیں۔


متعلقہ خبریں