چلغوزے ہوئے اب دسترس سے باہر

فائل فوٹو


خشک میوہ جات میں  چلغوزے سب سے خاص سمجھے جاتے ہیں لیکن آج کے دور میں ان کی آسمان سے باتیں کرتی قیمت نے انہیں نا صرف نایاب بلکہ قیمتی بھی بنا دیا ہے اور ان کا شمار  دور حاضر کے مہنگے ترین خشک میوہ جات میں کیا جاتا ہے۔

اس وقت ایک کلو چلغوزے 5000 سے 6000 روپے تک میں فروخت کیے جارہے ہیں۔ ان کی  حد سے زائد قیمت نے ان کی دسترس مشکل بنا دی ہے اور خاص طور پر اس سے سب سے زیادہ  نچلہ اور متوسط طبقہ متاثر ہورہا ہے جو ان کی خریدادی کا سوچ بھی نہیں سکتا جبکہ متمول طبقے کو بھی خریداری سے پہلے سوچنے پڑتا ہے۔

انتہائی مفید خشک میوہ جات میں شمار کیے جانے والے چلغوزوں میں موجود وٹامن ای، وٹامن کے، میگنیشیم، مینگنیز، پائنولینک ایسڈ، مونوسیچوریٹڈ فیٹس، فولاد، فاسفورس، پروٹین اور دیگر غذائی اجزا توانائی میں اضافہ کرتے ہیں۔

ان کا استعمال ناصرف تھکن سے بچاتا ہے بلکہ یہ خلیوں کی مرمت، وزن میں کمی، قوت مدافعت میں اضافے، بینائی کم ہونے کی پیچیدگیوں میں درستی کے لیے بھی انتہائی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

اسی طرح چلغوزے فالج، بینائی، زائد کولیسٹرول میں کمی، انزائٹی، ذہنی دباﺅ اور تناﺅ، بھوک، ذیابیطس، اعصاب، بالوں اور جلد کی صحت کے لیے بھی مفید ہیں۔

چلغوزوں کی تاریخ 

زمانہ قدیم سے لوگ چلغوزوں سے لطف اندوز اور فیض یاب ہوتے تھے۔ رومن تاریخ کے مطابق 300 قبل مسیح میں رومن افواج میں چلغوزے اپنی افادیت کی وجہ سے بہت مقبول تھے جبکہ امریکا میں اس کی کاشت دس ہزار سال سے کی جارہی ہے۔

مصری طبیب ان کو دواؤں کے طور پرتجویز کرتے آرہے ہیں

زمانہ قدیم سے مصری طبیب ان کو دواؤں کے طور پرتجویز کرتے آرہے ہیں شاید اسی وجہ سے چلغوزے یورپ اور ایشیا میں خاصے مقبول اور عام ہیں۔

چلغوزے پائن کے بیج ہوتے ہیں لیکن اس درخت کی سینکڑوں میں سے صرف 20 اقسا م ایسی ہیں جن کے چلغوزے کھائے جا سکتے ہیں۔ چلغوزے کی تیاری میں18 مہینے سے تین سال تک کا عرصہ لگتا ہے ، ان کی کلیاں کھلنے سے دس دن پہلے انہیں اُتار لیا جاتا ہے۔

چلغوزوں کا سائنسی نام چلغوزا پائن یعنی (Gerardiana Pinus) ہے

چلغوزوں کا سائنسی نام چلغوزا پائن یعنی Gerardiana Pinus ہے، اس کے درخت افغانستان، پاکستان اور شمال مغربی بھارت میں پائے جاتے ہیں جو 1800 سے 3350 میٹرکی بلندی پر اُگتے ہیں۔ چلغوزے کے درخت پاکستان میں شمالی علاقہ جات، بلوچستان، چلاس، گلگت، پارا چنار، وانا گستوئی، ژوب اور استور کی وادیوں میں پائے جاتے ہیں۔ تحصیل شیرانی دنیا کے سب سے بڑے‘ گھنے اور خالص چلغوزے کے جنگلات کا آبائی وطن ہے جو 25 ہزار ہیکٹر سے بھی زیادہ رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ چلغوزے کے درخت کی اوسط عمر 100 سال بتائی جاتی ہے۔ماہرین کی طرف سے محتاط اندازہ لگایا گیا ہے کہ صرف ایک درخت سے کم از کم دس ہزار روپے تک کا چلغوزہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر چلغوزے پاکستان میں پیدا ہوتے ہیں تو آخر اتنے مہنگے کیوں ہیں؟ اس سوال کا سیدھا سادہ سا جواب یہ ہے کہ پاکستان میں چلغوزے کے زیادہ تر درخت خشک اور پہاڑی علاقوں میں پائے جاتے ہیں بعض علاقے اتنے دور افتادہ ہیں کہ وہاں تک پہنچنے میں کئی، کئی دن اور بہت سارا پیسا لگ جاتا ہے۔

چلغوزے باغات کے مالکان، ایجنٹ‘ سب ایجنٹس اور دیگر آڑھتیوں سے لوگوں کے ہاتھوں تک آتے آتے قیمتی ہوہی جاتے ہیں تو اب اس مزیدار میوے کو بطور تبرک لیجئے اور احترام سے نوش جاں کیجئے۔


متعلقہ خبریں