ساہیوال:پولیس کی یقین دہانی پر احتجاج ختم، ذیشان کی تدفین


لاہور: سانحہ ساہیوال میں جاں بحق ہونے والے ذیشان کے ورثا نے پولیس کی جانب سے انصاف کے تمام تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھنے کی یقین دہانی کے بعد میت کی تدفین کردی اور احتجاج ختم کردیا۔

ہم نیوز کے مطابق چارگھنٹے تک فیروز پور روڈ پر ٹریفک کا نظام معطل رہا اور ذیشان کے ورثا احتجاج کرتے رہے تو اس کے بعد ایس پی ماڈل ٹاون احتجاجی مظاہرین سے مذاکرات کے لیے پہنچے۔

ایس پی ماڈل ٹاؤن نے مظاہرین نے یقین دہانی کرائی کہ ذیشان کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے دی جائے گی۔

مقتول ذیشان کے بھائی نے اس موقع پر کہا کہ مجھے تسلی دی گئی ہے کہ ذیشان کے خون کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے دی جائے گی اور فیملی کو بھی تحفظ ملے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے مقتول بھائی کی تدفین چاہتے ہیں۔

پولیس کی جانب سے تحفظ اور جے آئی ٹی کی شفاف رپورٹ کے وعدے پر ورثا نے احتجاج ختم کرکے ذیشان کو آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا ۔

ہم نیوز کے مطابق سانحہ ساہیوال میں مبینہ پولیس مقابلے میں جاں بحق ہونے والے چاروں افرار کی نماز جنازہ ادا کردی گئی ۔ نماز جنازہ میں عزیز رشتہ داروں کے علاوہ اہل محلہ اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

مبینہ پولیس مقابلے میں جاں بحق ہونے والے خلیل، نبیلہ اوران کی 13 سالہ بیٹی اریبا کی تدفین کردی گئی ہے۔ مبینہ مقابلے میں جاں بحق ہونے والے ذیشان کے ورثا نے پہلے میت کی تدفین کرنے سے انکار کردیا تھا اور سڑک پہ جنازہ رکھ کراحتجاج کیا جو تقریباً چار گھنٹے جاری رہا۔

ہم نیوز کے مطابق ذیشان کے ورثا کا مطالبہ تھا کہ حکومت مقتول پر لگائے جانے والے دہشت گردی کے الزامات واپس لے اور جب تک وہ الزامات واپس نہیں لیے جاتے اس وقت تک میت کو سپرد خاک نہیں کیا جائے گا۔

مظاہرین میں ذیشان کی معذور والدہ اور بیٹی بھی شریک تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’میرے بیٹے کا کسی دہشت گرد تنظیم سے کوئی تعلق نہیں تھا اور میں معذور ہونے کے باوجود اپنے بیٹے کے خون کو انصاف دلواؤں گی۔

ذیشان کی معذور والدہ سمیت اس کے دیگر ورثا پنجاب کے صوبائی وزیرقانون راجہ بشارت سے بھی مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہے تھے۔

ہم نیوز نے فیروز پور روڈ سے یہ اطلاع بھی دی تھی کہ مقتول کے ورثا کے احتجاج کے دوران گزشتہ تین گھنٹے سے علاقے کی بجلی بند ہے اور دور دور تک اندھیرا پھیلا ہوا ہے۔

ذیشان کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے لاہور ڈولفن فورس کے جوان بھی کافی تعداد میں پہنچے تھے اورانہوں نے مقتول کے بھائی اور اپنے ساتھی احتشام سے اظہار تعزیت اور افسوس کیا۔

ہم نیوز کے مطابق صوبائی وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے اتوار کو منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ذیشان کے گھر میں دہشت گرد موجود ہونے کے مصدقہ ثبوت وشواہد ملے ہیں۔

سانحہ ساہیوال میں سی ٹی ڈی نے مبینہ پولیس مقابلے میں ایک خاتون اور ایک 13 سالہ بچی سمیت چار افراد کو جاں بحق کردیا تھا۔ ابتدا میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ مرنے والوں کا تعلق داعش سے تھا۔

سانحہ ساہیوال کے بعد منظر عام پرآنے والی وڈیو کے مطابق کار سواروں نے نہ تو مزاحمت کی اور نہ پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی۔

مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق سانحہ ساہیوال کے عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ مقتولین کی گاڑی سے کپڑوں کے بیگ برآمد ہوئے تھے۔

ہم نیوز کے مطابق سانحہ ساہیوال پر سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں تحریک التوا بھی جمع کرادی ہے جس پر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ، خواجہ محمد آصف، رانا ثنااللہ، احسن اقبال، سردار ایاز صادق اور مریم اورنگزیب کے دستخط موجود ہیں۔

پی ایم ایل (ن) کی جانب سے جمع کرائی گئی تحریک التوا میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ سانحہ ساہیوال پر ایوان میں بحث کرائی جائے۔

ہم نیوز کے مطابق صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر کہا ہے کہ ’’ساہیوال کا واقعہ بہت تکلیف دہ ہے۔ جن بچوں کے سامنے ان کے والدین کو شہید کردیا گیا ہو، ان کے اذہان پر کتنے مضر اثرات مرتب ہوں گے، اس کا میں اندازہ بھی نہیں لگا سکتا ہوں‘‘۔


صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی نے ٹوئٹر پیغام میں لکھا ہے کہ ’’جن بچوں کے سامنے والدین شہید ہوئےان پرکتنےمضراثرات پڑیں گے، حکومت ان بچوں کا خیال تو رکھے گی مگر ماں باپ کا کوئی نعم البدل نہیں۔

صدر پاکستان نے اس یقین کا بھی اظہار کیا ہے کہ ’’ ظالم قاتلوں کوواقعی سزا دی جائے گی‘‘۔


متعلقہ خبریں