سانحہ ساہیوال کے بارے میں چند حقائق

ساہیوال سانحے میں خواتین اور بچوں سمیت چار افراد جاں بحق ہوئے تھے—رائٹرز۔


اسلام آباد: لاہور کا ایک خاندان 19 جنوری کی صبح شادی میں شرکت کیلئے بورے والا روانہ ہوا جس میں دو مرد ایک خاتون اور چار بچے شامل تھے۔

پنجاب پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے خفیہ اطلاع کی بنیاد پر مذکورہ خاندان کی گاڑی پر ساہیوال ٹول پلازہ کے قریب فائرنگ کی جس میں محمد خلیل عمر 43 سال ،اس کی اہلیہ نبیلہ عمر 37 سال، 13 سالہ بیٹی اریبہ خلیل اور 36 سالہ ذیشان ولد جاوید اختر (ڈرائیور) جاں بحق ہو گئے جبکہ خلیل کا بیٹا دس سالہ عمیر، سات سالہ بیٹی منیبہ اورچار سالہ جازبہ زخمی ہوئے۔

سی ٹی ڈی نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں ہلاک شدگان کو کالعدم تنظیم داعش کے اہلکار قرار دیا لیکن چند ایسے حقائق بھی ہیں جنہیں اب تک سامنے نہیں لایا گیا۔

ہلاک شدگان کون تھے؟

سی ٹی ڈی نے جن کار سواروں کو دہشت گرد قرار دیا اہل محلہ کے مطابق وہ لوگ 20 سال سے لاہور میں قیام پذیر تھے۔

مقتول  محمد خلیل ایک بھائی اور والدہ کے ساتھ لاہور میں رہائش پذیر تھے اور پرچون کی دکان سے گھر چلا رہے تھے جب کہ نبیلہ خلیل ایک گھریلو خاتون تھیں۔ واقعے کی اطلاع سے خلیل کی والدہ کو دل کا دورہ پڑ گیا اور وہ بھی انتقال کر گئی ہیں۔

ذیشان کون تھا؟

محکمہ انسداد دہشت گردی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ذیشان(ڈرائیور) کا تعلق کالعدم تنظیم سے تھا جس کا ٹاسک جنوبی پنجاب تک بارودی مواد پہنچانا تھا اور وہ خلیل کی فیملی کو استعمال کر رہا تھا۔

اہل محلہ کا مؤقف ہے کہ ذیشان 20 سال سے یہاں قیام پذیر ہے اور کسی قسم کی مشکوک سرگرمیوں میں ملوث نہیں پایا گیا۔ ذیشان کا چھوٹا بھائی احتشام لاہور کی ڈولفن فورس میں ملازم ہے۔

احتشام کا کہنا ہے کہ ذیشان کمپیوٹر ہول سیل کا کام کرتا تھا، میرے بھائی پر آج تک کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا۔

اہل محلہ کا کہنا ہے کہ ذیشان عرف مولوی کا چھوٹا بھائی لاہور کی ڈولفن فورس میں ملازم ہے۔ ذیشان 20 سال سے یہاں رہ ہا ہے اور یہیں پیدا ہوکر جوان ہوا۔

نامعلوم افراد کون تھے؟

سانحہ ساہیوال کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ فائرنگ کرنے اور بچوں کو گاڑی سے نکالنے والوں کی ویڈیوز موجود ہونے کے باوجود مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے۔

کار پر فائرنگ کرنے والے سی ٹی ڈی کے کسی اہلکار یا ٹیم کے سربراہ کو نامزد نہیں کیا گیا۔ حکومت نے واقعہ کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی میں جن افراد کو رکھا ہے ان کا تعلق بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ہے۔ ایسے میں جے آئی ٹی کی پر تحقیقات قبل از وقت ہی سوالات اٹھ رہے ہیں۔

گولی کا حکم کس نے دیا؟

سی ٹی ڈی کا قیام آٹھ سال پہلے عمل میں آیا تھا اور اس کی خصوصی ذمہ داری شدت پسندی اور دہشت گردی پر نظر رکھنا قرار دی گئی تھی تاہم سرے عام قتل کسی ادارے کا اختیار نہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کے آپریشن کو کم سے کم ڈی ایس پی یا ایس پی رینک کا افسر لیڈ کرتا ہے لیکن ساہیوال میں سب انسکپٹر صفدر حسین نے تمام احکامات جاری کیے۔

ٹیم انچارج صفدر حسین سمیت پانچ اہلکار تین اطراف سے گاڑی پر گولیاں برساتے رہے۔ سی ٹی ڈی ٹیم میں احسن ،محمدرمضان، سیف اللہ  اور حسنین اکبر سمیت 16 افراد شامل تھے جن میں 10 بارودی اور 6 سول لباس میں ملبوس تھے۔

سی ٹی ڈی کا جھوٹ کیسے پکڑا گیا؟

انسداد دہشت گردی کی ٹیم نے اپنے بیان میں کہا کہ کار سواروں کی جانب فائرنگ کی گئی اور جوابی فائرنگ میں ہلاکتیں ہوئیں لیکن رپورٹس اور عینی شاہدین کے مطابق کارسواروں نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔

عام طور پر اس نوعیت کے آپریشن میں بارود برآمد کیا ہوتا ہے تو بم ڈسپوزل اسکواڈ کو طلب کرکے بارودی مواد کو ناکارہ بنایا جاتا ہے لیکن سی ٹی ڈی ٹیم نے خودکش جیکٹس اور بارود کو ناکارہ بنائے بغیر ہی اپنی تحویل میں لے لیا۔


متعلقہ خبریں