خدیجہ صدیقی اقدام قتل کیس: ملزم سپریم کورٹ سے گرفتار

جھوٹی گواہیوں نے نظام عدل تباہ کر دیا، چیف جسٹس

فوٹو: فائل


اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے خدیجہ صدیقی اقدام قتل کیس میں ملزم شاہ حسین کو ’مجرم‘ قرار دیتے ہوئے اس کی رہائی کا فیصلہ کالعدم کردیا اورپانچ سال قید کی سزا بحال کردی۔

خدیجہ صدیقی اس وقت سٹی لاء یونیورسٹی لندن میں بار ایٹ لا کی طالبہ ہیں۔

خدیجہ صدیقی کو ان کے ساتھی طالب علم شاہ حسین نے تین مئی 2016 کو شملہ ہلز کے قریب اس وقت چھریوں کے وار کرکے زخمی کر دیا تھا جب وہ اپنی چھوٹی بہن کو اسکول سے لینے جارہی تھیں۔ خوش قسمتی سے شدید زخمی ہونے کے باوجود ان کی جان بچ گئی تھی۔

لاہورمیں کیے گئے قاتلانہ حملے کے ملزم اور خدیجہ صدیقی کے ہم جماعت (کلاس فیلو) شاہ حسین کو گرفتار کرکے اس کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔

درج مقدمہ کے تحت ملزم شاہ حسین نے خدیجہ صدیقی کی گردن سمیت جسم کے دیگر حصوں پر خنجر کے 23 وار کیے تھے جس سے وہ شدید زخمی ہوگئی تھی۔ واقع کی وڈیو فوٹیج بھی پیش کی گئی تھی۔

خدیجہ اقدام قتل کیس میں جوڈیشل مجسٹریٹ نے ملزم شاہ حسین کو مجرم ثابت ہونے پرسات سال قید کی سزا سنائی تھی جس کے بعد سیشن کورٹ نے ملزم کی سزا کم کرکے پانچ سال کردی تھی۔

لاہور ہائی کورٹ نے خدیجہ اقدام قتل کیس کے ملزم شاہ حسین کو بری کردیا تھا۔

شاہ حسین کی رہائی پرسابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس (ر) ثاقب نثارنے از خود نوٹس لیا تھا۔

ہم نیوز کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے خدیجہ صدیقی اقدام قتل کیس کی سماعت کی۔

سپریم کورٹ میں خدیجہ صدیقی پراقدام قتل کیس کا ملزم شاہ حسین پیش ہوا۔

ہم نیوز کے مطابق خدیجہ صدیقی کے وکیل نے دوران سماعت مؤقف اختیار کیا کہ ہائی کورٹ نے مقدمہ کے مکمل شواہد کو نہیں دیکھا اور ثبوت کا درست جائزہ بھی نہیں لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت میں ان کی مؤکلہ کی بہن بھی بطور گواہ پیش ہوئی تھیں۔ انہوں نے عدالت عظمیٰ کے گوش گزار کیا کہ ان کی مؤکلہ خدیجہ صدیقی ملزم کی کلاس فیلو تھی اور ملزم شاہ حسین نے اُس پر خنجر کے 23 وار کیے جن میں سے دو گردن پر کیے گئے۔

عدالت عظمیٰ کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان نے اس پر ریمارکس دیے کہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہائیکورٹ کا نتیجہ شواہد کے مطابق ہے یا نہیں؟

ملزم کے وکیل نے دوران سماعت مؤقف اپنایا کہ شاہ حسین اور خدیجہ کا ایک دوسرے سے قریبی تعلق تھا، دونوں کے گھر والے بھی ایک دوسرے کو جانتے تھے، دونوں کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا تھا تو اگر شاہ حسین نے یہ حملہ کیا تو ابتدا میں ہی اس کا نام لینے میں کیا امر مانع تھا؟

ہم نیوز کے مطابق خدیجہ صدیقی کے وکیل نے اس پر عدالت کے روبرو کہا کہ حملے کے وقت خدیجہ صدیقی ہوش و حواس میں نہیں تھی، اس نے ڈاکٹر کو بھی اجنبی قرار دیا تھا۔ ان کا مؤقف تھا کہ زخمی خدیجہ صدیقی پانچ دن بعد ہوش میں آئی اور ہوش میں آتے ہی فوری طور پر اُس نے ملزم شاہ حسین کا نام لیا۔

انہوں نے عدالت کے روبرو یہ مؤقف بھی اپنایا کہ شاہ حسین نے ارادے کے ساتھ صرف خدیجہ صدیقی پر خنجر سے حملے کیے، کار کے ڈرائیور پر حملہ نہیں کیا جبکہ خدیجہ کی بہن حملے کے وقت حواس میں تھی۔

بنچ کے سربراہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ خدیجہ اور اس کی بہن زخمی ہوئیں۔ انہوں نے ریمارکس دیے کہ کیس میں ہائی پروفائل کا لفظ کئی مرتبہ استعمال ہوا تو کیا ہائی پروفائل کے لیے قانون بدل جاتا ہے؟ ان کے ریمارکس تھے کہ جرم جرم ہوتا ہے ہائی ہو یا لو پروفائل ہو۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج اور بنچ کے رکن جسٹس مقبول باقر نے اس پر ریمارکس دیے کہ کسی کلاس فیلو نے کیس میں گواہی نہیں دی۔

ایک موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دونوں قانون کے طالبعلم تھے لہذا قانون کا عملی مظاہرہ کرتے ہیں۔
انہوں نے استفسار کیا کہ سب سے اہم یہ ہے کہ اگر ملزم شاہ حسین، لڑکی میں دلچسپی رکھتا تھا تو وہ قتل کیوں کرنا چاہتا تھا؟

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ملزم کے پاس کئی مواقع تھے کہ وہ قتل کردیتا لیکن اس نے گنجان علاقے میں ہی قتل کیوں کرنا چاہا؟ انہوں نے استفسارکیا کہ یہ بات ریکارڈ پر لائی گئی؟

خدیجہ صدیقی کے وکیل نے اس پر عدالت کو بتایا کہ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ دونوں بہت قریبی دوست تھے لیکن قتل کی کوشش سے سات ماہ قبل دونوں کے درمیان تعلق ختم ہو چکا تھا۔

انہوں نے کہا کہ شاہ حسین اصرار جبکہ ان کی موکل خدیجہ انکار کرتی رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اصراراورانکار کا کیس ہے۔

عدالت عظمیٰ کے سربراہ چیف جسٹس نے اس پر استفسار کیا کہ ریکوری میمو میں لکھا ہے کہ ہیلمٹ اور دو بال بھی ملے تو کیا بالوں کا ڈی این اے کروایا گیا؟

وکیل نے اس پر کہا کہ خدیجہ حملہ کیس میں تفتیش ناقص رہی، پولیس نے کہا کہ بال فرانزک لیب کو بھیجے تھے لیکن فرانزک لیب کو بال موصول نہ ہوئے۔

سپریم کورٹ بنچ کے سربراہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لاہور میں خطے کی اولین اور دنیا میں دوسری بہترین فرانزک لیب ہونا قابل فخربات ہے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ایسے مقدمات میں دو ہی صورتیں ہوتی ہیں کہ میری نہیں تو کسی کی بھی نہیں۔ دوسری یہ کہ لڑکی کے پاس کچھ ایسا ہو کہ جس سے لڑکے کو بلیک میل کیا جائے۔

سپریم کورٹ کے سربراہ نے استفسار کیا کہ کیا استغاثہ نے بھی لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی التجا کی ہے؟

خدیجہ صدیقی کے وکیل نے اس پر کہا کہ عدالت معاملہ ہائیکورٹ کو بھیجنے کے بجائے جو بھی فیصلہ کرے گی ہمیں قبول ہوگا۔

دوران سماعت وکیل صفائی خالد رانجھا کی درخواست پر ملزم شاہ حسین نے عدالت عظمیٰ میں دلائل دینے کی استدعا کی جس پر چیف جسٹس نے ملزم کودو منٹ تک بات کرنے کی اجازت دی۔

ملزم شاہ حسین کا مؤقف تھا کہ تعلقات کے خاتمے اور شادی سے انکار پر اس کا نام لیا گیا اور خدیجہ صدیقی نے جرح میں مجھے بھیجے گئے خطوط پر اعتراض کیا۔

ملزم نے عدالت عظمیٰ کے سامنے مؤقف اپنایا کہ استغاثہ نے مجھے ڈیسپریٹ شخص ظاہر کرنے کی کوشش کی۔

خدیجہ صدیقی نے گوش گزار کیا کہ شاہ حسین مجھے جذباتی کرکے بلیک میل کر رہا تھا۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے خدیجہ صدیقی سے ڈاکٹر کو دیے گئے بیان سے متعلق استفسارکیا۔

خدیجہ صدیقی نے اس پر مؤقف اپنایا کہ مجھے بہت کم یاد ہے، یہ بھی یاد نہیں ہے کہ میں نے بولا بھی تھا یا نہیں؟ جبکہ مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ میں زندہ بھی ہوں یا نہیں؟

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سماعت مکمل ہونے کے بعد خدیجہ صدیقی کی اپیل منظور کرتے ہوئے شاہ حسین کو مجرم قرار دیا اور پانچ سال قید کی سزا برقرار رکھی۔

ہم نیوز کے مطابق سماعت مکمل ہونے کے بعد پولیس نے مجرم شاہ حسین بخاری کو گرفتار کرلیا۔

مجرم لاہور کے ممتاز وکیل تنویر ہاشمی ایڈوکیٹ کا بیٹا ہے۔


متعلقہ خبریں