امریکہ 18 ماہ میں افغانستان سے نکلنے پر آمادہ، ڈرافٹ تیار


دوحا: امریکہ اورطالبان کے درمیان قطر میں ہونے والے مذاکرات میں دنیا کی ’واحد سپرپاور‘ نے افغانستان سے آئندہ 18 ماہ میں نکل جانے کا عندیہ دے دیا ہے۔

یہ بڑی خبر اس وقت سامنے آئی جب افغانستان کے سرکاری نشریاتی ادارے ’طلوع نیوز‘ سمیت دنیا کے بیشتر نیوز ایجنسیوں اور خبرساں اداروں نے ذمہ دار ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی۔

نشریاتی ادارے ’طلوع نیوز‘ کے مطابق مذاکرات کے پانچویں دن بات چیت میں امریکی حکام نے افغانستان نے اپنی افواج کے انخلا پر آمادگی کا اظہار کیا اور ساتھ ہی زور دیا کہ طالبان بھی جنگ بندی کریں۔

عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکہ اورافغان طالبان کے درمیان نہ صرف ابتدائی معاہدہ طے پا گیا ہے بلکہ ڈرافٹ بھی تیارکرلیا گیا ہے۔ تیار ڈرافٹ کے تحت امریکہ اورنیٹو فورسز آئندہ 18 ماہ میں افغانستان سے نکل جائیں گے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان کے ثالثی کے کردار سے افغان طالبا ن اور امریکا کے درمیان امن معاہدہ طے پاگیا ہے۔ اس طرح 17 سالہ طویل جنگ اپنے اختتامی مراحل میں داخل ہوگئی ہے۔

عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد افغانستان روانہ ہوگئے ہیں۔ وہ افغان صدر کو معاہدے سے متعلق آگاہ کریں گے۔

دلچسپ امر ہے کہ ابتدا میں دو روزہ مذاکرات کا شیڈول طے کیا گیا تھا جوپانچویں دن بھی جاری رہا ہے۔

افغان نشریاتی ادارے کے مطابق طالبان نے مذاکرات کے دوران اس بات پر آمادگی ظاہر کی کہ وہ داعش اور القاعدہ کو اپنے زیر کنٹرول علاقے میں آپریٹ نہیں کرنے دیں گے۔

ذمہ دار ذرائع کے حوالے سے افغان ادارے نے بتایا ہے کہ مذاکراتی عمل کا حصہ طالبان رہنماؤں نے امریکیوں سے ان کے انخلا کا نظام الاوقات (ٹائم ٹیبل) بھی مانگ لیا۔

افغان نشریاتی ادارے کے مطابق طالبان مذاکرات کاروں نے امریکہ سے اس بات کی ضمانت بھی طلب کی کہ وہ خطے کے دیگر ممالک سمیت پاکستان کے لیے خطرات پیدا نہیں کرے گا۔

ذرائع کے مطابق طالبان نے مؤقف اپنایا ہے کہ امریکہ جب تک اس ضمن میں ضمانتیں فراہم نہیں کرے گا اس وقت تک جنگ بندی ممکن نہیں ہے۔

طلوع نیوز کے مطابق امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے افغان طالبان سے کہا ہے کہ وہ افغان صدر اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں۔

افغان نشریاتی ادارے کے مطابق انہوں نے واضح کیا ہے کہ مذاکرات کا مقصد اصلاحات کا نفاذ ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کا قطعی مقصد افغانستان پر طالبان کا کنٹرول نہیں ہے۔

افغان نشریاتی ادارے کے مطابق طالبان کی جانب سے تاحال اس حوالے سے کوئی بھی جواب نہیں دیا گیا ہے۔

غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق طالبان کا وفد جنگ بندی کے بعد کابل آئے گا جس کے بعد اشرف غنی حکومت کے نمائندوں سے مذاکرات ہوں گے۔

طالبان نے امریکہ کے ساتھ قطر میں ہونے والے مذاکرات قبل دو تین مرتبہ انہیں ملتوی کیا گیا تھا۔

قطر کے شہر دوحہ میں ہونےو الے مذاکرات کے لیے افغان طالبان کی قیادت کرنے والے ملا برادر کو گزشتہ سال ہی پاکستان نے رہا کیا تھا۔ 2010 میں ملا برادر کو دہشت گردی کے سنگین الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔

سیاسی مبصرین کے مطابق افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں اہم ترین ایشوز یہ ہوں گے کہ طالبان کی سیاسی حیثیت تسلیم کی جائے، جنگ بندی ہو اور قیام امن کی مستقل راہ ہموارہو۔

امریکہ کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں طالبان وفد نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی قطعی اجازت نہیں دیں گے۔

طلوع نیوز کے مطابق افغان صدر اشرف غنی کے نمائندہ خصوصی عمر داؤدزئی کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی وفد جمعہ کے دن چین پہنچا ہے جہاں وہ علاقائی امن و سلامتی کے حوالے سے بات چیت کررہا ہے۔

خطے کی سیاسی صورتحال پہ نگاہ رکھنے والوں کے مطابق ملا عبدالغنی برادر کو طالبان قطر دفتر کا سربراہ بنایا جانا اس امر کا غماز ہے کہ قیام امن کا راستہ زیادہ دور نہیں ہے۔


متعلقہ خبریں